السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جو شخص (لاَأِ لٰہَ أِ لاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدَّ رَّسُوْلُ اللّٰہِ) کا اقرار کرتا ہے اور باقی چار ارکان نماز‘ زکوٰۃ‘ روزہ اورحج پر عمل پیرا نہیں ہوتا، نہ دوسرے نیک اعمال کرتا ہے جو شریعت اسلامی میں مطلوب ہیں۔ کیا وہ قیامت کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا مستحق ہوگا جس کی وجہ سے تھوڑی دیر کے لئے بھی جہنم میں داخل نہ ہوگا؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جو شخص لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کااقرار کرا ہے اور نماز‘ روزہ،حج‘ زکوٰۃ پر عمل نہیں کرتا اور ان چاروں ارکان کے وجوب کا انکار کرتا ہے یا ان میں سے کسی ایک رکن کے وجوب کامنکر ہے حالانکہ اسے علماء کے ذریعے معلوم ہو چکا ہے کہ یہ اعمال فرض ہیں تو ایسا شخص مرتد ہوجاتا ہے۔ اس سے توب ہکا مطالبہ کیا جائے گا۔ اگر وہ توبہ کر لے تو اس کی توبہ تسلیم کی جائے گی۔ اس کے بعد اگر اس کی وفات ایمان پو ہوئی تو وہ شفاعت کا مستحق ہوگا۔ لیکن اگر وہ ان اعمال کے ترک پر مصر ہو تو اسے اسلامی حکمران مرتد ہونے کی وجہ سے سزائے موت دے گا اور اسے قیامت کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت نصیب ہوگی نہ کسی اور نیک آدمی کی۔ اگر وہ صرف نماز سستی اور لاپرواہی کی وجہ سے ترک کردے تو اس کے متعلق علمائے کرام کا زیادہ صحیح قول یہی ہے کہ وہ کافر ہوجا تا ہے اور یہ ایسا کف رہے کہ وہ ملت اسلامیہ سے بھی خارج ہو جاتا ہے۔ چنانچہ وہ زکوٰۃ‘ روزہ اور حج بیت اللہ کا بھی تارک ہو تو پھر توبددرجہ اولیٰ کافر ہوگا۔ لہٰذا اگر وہ اسی حالت میں فوت ہوجائے تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی اور نیک آدمی کی شفاعت کا مستحق نہیں ہوگا۔ بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ ان ارکان کا تارک عملی کافر کہلائے گا، حقیقی کافر نہیں ہوگا۔ لہٰذا اسلام سے خارج نہیں ہوگا۔ ان علماء کی رائے میں بڑے بڑے گناہوں کا مرتکب مسلمان اگر ایمان کی حالت میں فوت ہوتا ہے تو شفاعت کا مستحق رہے گا۔
اللجنۃ الدائمۃ ۔ رکن: عبداللہ بن قعود، عبداللہ بن غدیان، نائب صدر: عبدالرزاق عفیفی، صدر عبدالعزیز بن باز
فتویٰ (۲۱۹۶)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب