السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مساجد میں قائم کچھ مذہبی تنظیمیں جو مسلمانوں کے بعض فرقوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ مثلاً وہ جماعتیں حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم (کی صحت اور ضعف) کے متعلق عقل کی معیار بناتی ہیں اور اس طرح ہزاروں صحیح حدیثوں کا انکار کردیتی ہیں۔ بعض جماعتیں اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات کو ان کے ظاہری معنو ں سے ہٹا کر ان کی دوسری تشریح کرتی ہیں۔ یہ لوگ کہتے ہیں ’’پہلوں (کاموقف) زیادہ پختہ تھا۔ لیکن بعد والوں (موقف) زیادہ علم والا ہے۔’’انہوں نے یہ بات مشہور کر رکھی ہے کہ ’’اللہ ہر جگہ موجودہے‘‘ اس کے علاوہ اور بھی جماعتیں ہیں۔ انہوں نے اپنی اپنی مسجدیں بھی بنارکھی ہیں۔ کیاان مساجد میں ایسا عقیدہ رکھنے والے امام کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے؟
ان میں سے کسی مسجد کا امام یہ ظاہر کرے کہ وہ اس قول سے رجوع کرتا ہے تو کیا مجھے اس سے یہ مطالبہ کرنا چاہئے کہ وہ اس جماعت سے علیحدگی اختیار کرے یا میں اس بات کو صحیح مان لوں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جو شخص ان صحیح احادیث کا انکار کرتا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں اور ان کی تکذیب ہے، وہ غلطی پر ہے اور گناہ گار ہے۔ جہاں تک اس کے کافر ہونے کا تعلق ہے تو اس میں کچھ تفصیل ہے۔ جو شخص ان احادیث وآیات کی تاویل کرتا ہے جن میں اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ اور صفات مقدسہ بیان ہوئی ہیں اور ان کے ظاہری معنی کو چھوڑ کر دوسرے معنی مراد لیتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ ’’سلف کا مذہب زیادہ پختہ اور سلامتی والا ہے لیکن متاخرین کا علم زیادہ ہے‘‘ اس شخص کی یہ بات غلط ہے کہ متاخرین کا علم زیادہ ہے۔ کیونکہ سلف صالحین (صحابہ کرام اور تابعین عظام) کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ باخبر تھے اور انہیں زیادہ اچھی طرح سمجھتے تھے اور ان کے مطلب ومقصد سے خوب واقف تھے۔ لہٰذا ان کا مذہب متاخرین کے مذہب سے زیادہ پختہ اور زیادہ سلامتی والاہے۔
اور جو شخص اس بات کا قائل ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذا ت کے لحاظ سے ہر جگہ موجود ہے، وہ حلول کا عقیدہ رکھنے والا ہے، لہٰذا وہ کافر ہے اور جو شخص یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ علم کے لحاظ سے ہر جگہ ہے، ذات کے لحاظ سے نہیں و وہ صحیح کہتا ہے اور جو شخص غلو کرتے ہوئے تمام صحیح احادیث نبویہ کا انکار کرتا ہے اور صرف قرآن پر ایمان لانے کا دعوی کرتا ہے تو وہ بھی کافر ہے اس کے پیچھے نماز جائز ہے، نہ اس کی اقتداء میں ادا کی ہوئی نماز ہوتی ہے۔ اسی طرح جو شخص اسمائے حسنیٰ اور صفات باری تعالیٰ اور قیامت وغیرہ کی نصوص کی تاویل کرتا ہے اور وحدۃ الوجود کا قائل ہے یا اللہ تعالیٰ کو ایک ایسا کلی وجو دقرار دیتا ہے جس کا وجود صرف ذہن میں ہے ذہن سے باہر کہیں نہیں، یا موت کے بعد جسمانی طور پر اٹھنے کا انکار کرتے ہوئے روحانی طور پر اٹھنے کا قائل ہے تو وہ بھی کافر ہے، اس کے پیچھے نماز جائز نہیں۔ مذکورہ بالا افراد میں سے جو کوئی توبہ کرلے ہم اس کی توبہ کو صحیح سمجھیں گے اور اس کے دل کی صحیح کیفیت اللہ کے علم میں ہے۔
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلَّمَ
اللجنۃ الدائمۃ ۔ رکن: عبداللہ بن قعود، عبداللہ بن غدیان، نائب صدر: عبدالرزاق عفیفی، صدر عبدالعزیز بن باز
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب