السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا یہ حدیث ہے کہ
(لَا تَسُبُّوا الدَّھْرَ فَأَنَا الدَّھْرُ أُقَلَّبُ… الخ)
’’زمانے کو گالی نہ دو۔ میں ہی زمانہ ہوں… ’’اگر یہ حدیث ہے تو کیا یہ صحیح حدیث ہے؟ اور اس کا مطلب کیا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
امام بخاری اور امام مسلم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی یُوْذِینِیْ ابْنُ آدَمَ یَسُبُّ الدَّھْرَ وَأَنَا الدَّھْرُ أَقْلِّبُ الَّیْلَ وَالنَّھَارَ)
’’اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ابن آدم مجھے ایذا پہنچاتا ہے، وہ زمانے کو گالی دیتا ہے اور میں ہی زمانہ ہوں، رات اور دن کو بدلتا ہوں‘‘
(لَا تَسُبُّو الدَّھْرَ فَأِنَّ اللّٰہَ ھُوَالدَّھْرُ)
’’زمانے کو گالی دوکیونکہ اللہ ہی زمانہ ہے۔‘‘
اس حدیث کی تشریح میں امام بغوی' فرماتے ہیں: ’’عربوں کی یہ عادت تھی کہ وہ مصیبت کے وقت زمانے کو برابھلا اور گالی دیتے تھے۔ کیونکہ وہ مصیبتوں اور تکلیفوں کو زمانے کی طرف منسوب کرتے تھے۔
وہ کہتے تھے ’’فلاں شخص کو زانے کی چوٹیں پڑیں اور فلاں قبیلے کوزمانے نے تباہ کردیا۔‘‘ چونکہ وہ مصائب کو زمانے کی طرف منسوب کرتے تھے، لہٰذا وہ ان حوادث کو فاعل کو برا بھلا کہتے تھے۔ اس طرح وہ گالی اصل میں اللہ تعالیٰ کو دی جاتی تھی، کیونکہ ان واقعات کا فاعل حقیقت میں اللہ تعالیٰ ہے (نہ کہ زمانہ جسے وہ اپنے خیال میں مصیبت کا سبب قرار دے رہے تھے)۔ اس لئے انہیں زمانے کو گالی دینے سے منع کردیاگیا۔‘‘
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلَّمَ
اللجنۃ الدائمۃ ۔ رکن: عبداللہ بن قعود، عبداللہ بن غدیان، نائب صدر: عبدالرزاق عفیفی، صدر عبدالعزیز بن باز فتویٰ (۸۴۸۷)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب