السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بعض لوگ اپنے قریبی رشتہ داروں کی موت پر ولیمے مجلس عزا وغیرہ رچاتے ہیں اور قربانی کرتے ہیں اور ان کی قیمت متوفی کے مال سے خرچ کی جاتی ہے، اس کا کیا حکم ہے؟ نیز اگر میت خود اپنے بعد ایسے ولیموں کی وصیت کر جائے تو کیا شرعا ورثا پر لازم ہے کہ اس کی وصیت پر عمل درآمد کریں۔‘‘(محمد۔ ع۔ا)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
موت کے بعد ولیمے رچانے کی وصیت کرنا، بدعت اور جاہلیت کے اعمال سے ہے۔ اسی طرح اگر اس کی وصیت کے بغیر میت کے گھر والے ولیمے کریں تو بھی مکروہ کام ہے، جو جائز نہیں ہے۔ جیسا کہ جریر بن عبداللہ بن بجلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ انہوں نے کہا:
((کُنَّا نَعُدُّ الْاِجْتماعَ الی اھْلِ الْمَیِّتِ وصُنْعة الطَّعَامِ بعدَ الدَّفْنِ مِنَ النِّیاحَة))
’’ہم میت والوں کے ہاں اکٹھا ہونے اور دفن کے بعد کھانا پکانے کون وحہ گری میں ہی شمار کرتے تھے۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد نے اسناد حسن سے نکالا۔
اور یہ اس لیے بھی ناجائز ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میت والوں کے لیے دوسروں پر کھانا پکانا مشروع کیا ہے کیونکہ وہ مصیبت میں مبتلا ہوتے ہیں۔ جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جعفر بن ابی طالب کے غزوہ موتہ میں شہید ہوجانے کی خبر پہنچی تو آپ نے ان کی برادری کے لوگوں سے کہا:
((اصْنَعُوا لآلِ جَعْفرٍ طعامًا، فَقَدْ اتَاھُم مَا یُشْغِلُھُم))
جعفر کے اہل خانہ کے لیے کھانا پکاؤ۔ کیونکہ انہیں ایسی مصیبت آئی ہے جو انہیں مشغول رکھے ہوئے ہے۔‘‘
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب