سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(07) ننگے سر نماز

  • 796
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2456

سوال

(07) ننگے سر نماز

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا ننگے سر نماز جا ئز ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سر  پر ٹو پی رکھتے یا نہ رکھتے۔اگر رکھتے تو نماز کے وقت سر سے  اُتارکر زمین پر یا جیب میں رکھ کر ننگے سر نماز پڑھتے یا ٹوپی پہن کر نماز پڑھتے۔؟بیّنوا تو جروا


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

سائل نے اپنی منشا کی تعین نہیں کی۔اگر اس کی منشا یہ ہے کہ ننگے سر نماز جائز ہے یا نہیں۔تو اس کے جواز ہو نے میں کسی کا اختلاف

نہیں ہے۔احرام کی حا لت میں سب حا جی ننگے سر نماز پڑ ھتے ہیں۔

بلو غ المرام باب شروط الصّلوٰۃ میں ہے۔

«ولهما من حدیث ابی هریرة رضی اللہ تعالیٰ عنه لا یُصَلِّی اَ حَدُ کُمْ فِی الثَّوبِ الْوَاحِدِ لَیْس علی عاتقه منه شیءٌ۔»

’’ یعنی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ تمہا را ایک کپڑے میں اس طر ح نماز نہ پڑھے کہ کندھے پر کچھ نہ ہو۔‘‘

د یکھئے ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کی اجاز ت دے دی ہے لیکن کندھے کاڈھکنا ضرور ی  بتلایا ہے۔سر کا کہیں ذکر نہیں۔

آل حضر ت کا عمل

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کپڑا اوڑھ کرنماز پڑھی ہے۔ جس کے پڑھنے کی صورت یہ تھی کہ کپڑے کی دونوں طرفین خلاف طور سے کندھےپر ڈال لیں۔یعنی اس کی دائیں طر ف بائیں کندھے پراور با ئیں طرف دائیں کندھے پر ڈال لیں جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ سر پر کچھ نہ کچھ تھا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد

فعل کے علاوہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک قو ل بھی ہے۔بلو غ المرام میں ہے۔

«عن جابر رضی الله تعالیٰ عنه انَّ النبي صلی الله عليه وسلم قال (اذا کان الثو ب واسعا فلتحف به يعنی فی الصَّلوٰة وفی المسلم فخالف بين طر فيه فان کان ضيقا فاتَّز ربه» (متفق عليه )

’’یعنی جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کپڑافراخ ہو تو اوڑھ لے۔ یعنی نماز میں اور مسلم کی روایت میں اوڑھنے کا طر یق بتایا ہے کہ کپڑے کی دونوں طرفین خلا ف طور پر کرے یعنی خلاف ِطور سے کندھے پر ڈال لے۔اگر کپڑا تنگ ہو تہ بند باندھ لے۔‘‘

دیکھئے اس میں بھی کندھوں کا ذکرہے۔ اگر سر کا ڈھکنا ضروری ہوتا  تو کسی روایت میں اس کا ذکر بھی ہوتا۔

ایک شبہ اور اس کا جواب  

بعض کہتے ہیں ایک کپڑے میں نماز اس وقت تھی جب کپڑوں میں تنگی تھی۔اس وقت جائز تھی لیکن ان کا یہ کہنا صحیح نہیں کیونکہ جابررضی اللہ عنہ باوجود کپڑا ہونے کے ایک کپڑے میں نماز پڑھ کر یہ مسئلہ بتایا کہ اب بھی جائز ہے۔  بخا ری صفحہ نمبر51

حضرت عمررضی اللہ عنہ کا فیصلہ

کنز العمال میں ہے۔

«عن الحسن ان ابیَّ بن کعب وعبدالله بن مسعود اختلفا فی الصَّلوة فی الثوب الواحد فقال ابی لا بأس به قد صلی النی صلی اللہ علیه وسلم کان ذالک اذا کان الناس لا یجدون الثیاب وامّا اذا وجدوها فا لصلوٰۃ فی ثوبین فقام»

«عمررضی اللہ عنه علی المنبر فقا ل ما قال ابیٌّ ولم یال ابن مسعودٍ(عب)»

(کنز العما ل جلد نمبر3 صفحه143)

’’یعنی ابی اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما میں اختلا ف ہوا۔ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا نماز ایک کپڑ ے میں جائز ہے کیونکہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کپڑ ے میں پڑھی ہے۔عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا یہ اس وقت تھا جب کپڑوں میں تنگی تھی۔ جب کپڑا ملے تو پھر دو ہی کپڑوں میں نماز پڑھنی چاہیئے۔ان دونوں میں فیصلہ کے لیے حضرت عمررضی اللہ عنہ منبر پر چڑھے اور فرمایا ابی رضی اللہ عنہ کا قول ٹھیک ہے۔ اور عبد اللہ بن مسعود نے کوئی کمی نہیں کی۔ (تحقیق میں)

پس جب ایک کپڑے میں نماز ثابت ہو گئی جس کے اوڑھنے کی صورت یہ ہےکہ دونوں طرفین خلاف ِ طور سے کندھے پر ڈال لے تو ننگے سر نماز ثابت ہو گئی۔

نیز بخاری کے صفحہ54میں ہے حضرت عمررضی اللہ عنہ نے کہا۔

«صلیّٰ رجلٌ فی ازارٍ ورداءٍ فی ازارٍ وقميصٍِ فی ازارٍوقباءٍ فی سراويلَ ورِدتءٍ فی سراويلَ وَقميصٍ»

’’یعنی انسان تہ بند اور چادر میں بھی نماز پڑھ سکتا ہے نیز تہ بند اور قمیص میں۔ تہ بند اور چوغہ میں۔پاجامہ اور چادر میں پاجامہ اور قمیص میں۔‘‘

کنز العمال جلد3 صفحہ14 میں یہ روایت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بحوالہ ابن حبا ن مرفوع ذکر کی ہے یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انسان تہ بند اور چادر۔ تہ بند اور قمیص ،تہ بند اور چوغہ ،پاجامہ اور قمیص میں نماز پڑھ سکتا ہے۔

اس سے بھی صاف معلوم ہوا کہ سر ڈھکنا ضروری نہیں۔ نیز  ابھی گزرا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کپڑا فر اخ ہونے کے وقت کندھے ڈھکنے کا حکم دیا ہے سر ڈھکنے کا حکم نہیں دیا  اگر سر کا ڈھکنا ضروری ہوتا تو اس کا بھی کہیں حکم ہوتا۔ہاں افضل  ہے۔کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے منبر پر بڑے  بڑے صحابہ کی موجودگی میں یہ فیصلہ کیا ہے۔

یہ یاد رہے کہ افضل کے مقابلہ میں جواز ہے اگر کوئی جواز پرعمل کرے تو  اس پر طعن یا اعتراض نہیں ہوسکتا جیسا کہ رات کو تہجد پڑھنا افضل ہے لیکن اگر کوئی نہ پڑھے تو اس پر طعن یا اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔

«اِ ذَا وَسَعَ الله فَا سْعَوْا»

’’یعنی جب اللہ تعالٰی فرا خی کرے تم بھی فراخی کرو۔‘‘ (بخاری مع فتح الباری)

مشکوٰۃ میں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی اسی کے قر یب روایت ہے نیز عام حا لت سلف کی یہی تھی کہ وہ پگڑی اور ٹوپیوں کے ساتھ نماز پڑھتے اور اسی بنا پر حضرت جابر رضی اللہ عنہ پر ایک کپڑے میں نماز پڑھنے پر اعتر اض ہوا۔ اور حسن بصریؒ کے قول سے بھی یہی ظاہر ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اہلحدیث

کتاب الطہارت،سترکا بیان، ج2ص14 

محدث فتویٰ

 

تبصرے