سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(239) موسیقی کا حکم

  • 7959
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 987

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں نے صحیفہ عکاظ عدد ۶۱۰۶ مورخہ ۲۹ ربیع الثانی ۱۴۰۳ہجری میں ایک خبر پڑھی جس کا ماحصل یہ ہے کہ ایک سعودی گویا تھا۔ جس نے گانا چھوڑ دیا تھا۔ ایک فضائی سفر میں جو قاہرہ اور باریس کے درمیان تھا۔ اس گویے کی ایک دیندار آدمی سے ملاقات ہوئی اور گانے اور اس کی مشروعیت سے متعلق باتیں ہونے لگیں اور جب وہ گویا طیارہ سے اترا تو اس دیندار آدمی نے اسے دلائل وبراہین سے گانے کی مشروعیت پر مطمئن کر دیا۔ وہ لوٹا اور چند گانے سنانے کھڑا ہوگیا۔ جنہیں بحث کا پہلا پھل قرار دیا جا سکتا ہے۔

کیا اسلام میں گانا مشروع ہے اور وہ بھی دلائل و براہین کے ساتھ۔ خصوصاً موجودہ دور کے عیش وعشرت کے اوقات میں جبکہ موسیقی بھی ساتھ ہوتی ہے؟ (قاسم۔م۔ جامعہ ملک سعود)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

گانا جمہور اہل علم کے نزدیک حرام ہے اور گانے کے ساتھ کوئی کھیل کا آلہ جیسے موسیقی، عود، رباب یا کوئی اور چیز ہو تو اس کی حرمت پر مسلمانوں کا اجماع ہے۔ اس کے دلائل یہ ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْتَرِیْ لَہْوَ الْحَدِیْثِ لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ﴾

’’اور لوگوں میں کوئی ایسا ہے جو بیہودہ باتیں خریدتا ہے تاکہ ان سے لوگوں کو اللہ کی راہ سے بہکا دے۔‘‘(لقمان: ۶)

اس آیت کی تفسیر مفسرین کی اکثریت نے غنا سے کی ہے اور حضرت عبداللہ بن مسعود اس بات پر قسم اٹھاتے ہوئے کہتے تھے کہ:

((انَّ الغِنَا یُنْبِتُ النِّفَاقَ فِی الْقَلْبِ کَمَا یُنْبِتُ الْمَائُ الْبَقْل))

’’گانا دل میں اس طرح نفات پیدا کرتا ہے جیسے پانی سبزہ اگاتا ہے۔‘‘

اور صحیح حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

میری امت میں کچھ ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو زنا، ریشم، شراب اور آلات موسیقی کو حلال بنا لیں گے۔

اس حدیث کو بخاری نے اپنی صحیح میں تعلیقاً اور دوسرے محدثین نے صحیح اسناد کے ساتھ روایت کیا ہے اور معازف کے معنی گانا اور آلات موسیقی ہیں۔ اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ جس شخص نے غنا کی مشروعیت کا فتویٰ دیا ہے۔‘‘(اگر یہ نقل صحیح ہے تو) اس نے بغیر علم کے اللہ تعالیٰ پر بات کہی اور باطل فتویٰ دیا۔ جس کے متعلق جلد ہی قیامت کے دن اس سے باز پرس ہوگی۔ اور مدد تو اللہ تعالیٰ ہی سے درکار ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ابن بازرحمہ اللہ

جلداول -صفحہ 225

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ