سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(113) نمازیوں کی خاطر درمیانہ وقت نماز پڑھنا

  • 795
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 1146

سوال


السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مسجدٹاہلی والی چنیوٹ اہل حدیث کی مسجدہے۔اس مسجد میں ہمیشہ درمیانہ وقت میں نماز ہوتی رہتی ہے۔اب عرصہ سات آٹھ ماہ سے دوتین نمازیوں نےاپنی جماعتیں علیحدہ شروع کردی ہیں اورکہتے ہیں کہ ہم اول وقت میں اپنی جماعت کرائیں گے کیونکہ افضل ہے۔اس بات پرنمازیوں کی جماعت میں بہت فسادبرپا ہوگیا ہےاب سوال یہ ہے کہ وہ دوتین نمازی جوپہلے جماعت قائم کرتے ہیں ۔اگروہ پوری جماعت کےساتھ نماز ادا کریں بہترہے یا اکیلی جماعت قائم کرکے فساد سےبچے رہنا بہترہے۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

مشکوٰۃ میں ہے :

«عن عبدالله بن عمر قال مکثنا ذات ليلة ننتظر رسول الله صلی الله عليه وسلم صلوة العشاء الاٰخرة فخرج علينا حين ذهب ثلث الليل او بعدہ فلاندری اشیٌ شغله فی اهله اوغيرذالک  فقال حين خرج انّکم تنتظرون صلوٰة ً مّا ينتظرها اهل دين غيرکم ولولا ان يثقل علی ٰ امّتی لصلّيت بهم هذہ الساعة ثم  امر الموذن فاقام الصلوة وصلی » (رواہ مسلم مشکوۃ باب تعجيل الصلوة فصل 3)

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نےانتظارکی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی نماز عشاء کے لئے تہائی رات تک  یا زیادہ گزرگئی۔آپ نکلے معلوم نہیں کہ آپ کس کام میں  مشغول تھے یا ویسے ہی نہیں  نکلے  پس فرمایا  تم ایک ایسی نماز کے انتظار میں ہوکہ تمہارے سواکوئی اہل دین اس کا انتظار نہیں  کرتے اگر میری امّت پربوجھ نہ ہوتا تومیں  اسی وقت ان کونمازپڑھاتا۔

اس حدیث  سے معلوم ہوا کہ  وقت میں نمازیوں کورعایت ضروری ہے۔نمازعشاء میں  تہائی رات گزرنے پرپڑھنی افضل ہےمگرآپ نمازیوں کی رعایت سےاس وقت نہیں  پڑھاتے تھے بس اسی طرح ان نمازیوں کوسمجھ لینا چاہیے ۔جواول وقت کوافضل کہتے ہیں وہ بھی نمازیوں  کی خاطر درمیان وقت میں پڑھ سکتےہیں  خاص کرجب سےایسی نعمت عظمٰی بھی حاصل ہوتوپھرضرور نمازیوں کی رعایت چاہیے تاکہ سب ملنےسےجماعت بڑی ہواورثواب زیادہ ہو۔

جن احادیث میں  «يميتون الصلوة» (جوامام نمازکوضائع کردیں )تم ان سے الگ اپنے وقت پر پڑھ لو) آیاان میں اول وقت سے تاخیرمراد نہیں بلکہ ان میں مطلق وقت کاذکرہے۔چنانچہ مشکوۃ کے اسی باب میں ہے «يميتون الصلوة اويوخرون عن وقتها»پس جوشخص نمازکا وقت ضائع کردے اورایسےمکروہ وقت میں پڑھے جس کی بابت حدیث میں آیاہےتلک  صلوة المنافق۔تواس صورت میں الگ پڑھ سکتا ہےپھران احادیث میں الگ جماعت کرنے کا کہیں ذکرنہیں کیونکہ جماعت سےنمازپڑھنےکی اصل غرض اتفاق واتحادہے۔الگ جماعت کرنےسےوہ فوت ہوتی ہے بلکہ پہلے سے بھی نزاع اوراختلاف بڑھتا ہے توپھر الگ جماعت قائم کرنا کس طرح درست ہوسکتاہے۔

ینزحدیث میں ہے«لايومن الرّجل فی سلطانه»یعنی کوئی شخص دوسرے کے اختیار والی جگہ میں امامت نہ کرائے۔

مذکورہ بالاصورت میں اصل امام مسجدامامت کااختیاررکھتاہےجومقررامام کے علاوہ اس سے پہلے جماعت کراتے ہیں ان کی جماعت اس حدیث کے بالکل خلاف ہے پس بجائے اس کے کہ ان کواس جماعت کاثواب ہوالٹاعذاب کاخطرہ ہے۔

وباللہ التوفیق

فتاویٰ اہلحدیث

کتاب الصلوۃ،نماز کا بیان، ج2 ص70 

محدث فتویٰ


ماخذ:مستند کتب فتاویٰ