السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں ایک دفعہ اپنی نماز میں سورہ تبت پڑھ رہی تھی۔ میری بہن نے مجھے پڑھتے ہوئے سن لیا تو مجھے کہنے لگے: نماز میں اس سورت کو پڑھنا اور اس کا تکرار درست نہیں۔ کیونکہ اس سورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا پر لعنت ہے۔ میں نے اس سے ذکر کیا کہ وہ تو کافر مشرک تھا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف پہنچایا کرتا تھا۔ لیکن وہ اپنی بات پر اڑ گئی۔ میں آپ سے افادہ کی توقع رکھتی ہوں کہ آیا میں غلطی پر ہوں یا صواب پر؟ (خدیجہ۔ع)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سورہ تبت بھی قرآن کریم کی سورتوں میں سے ایک سورت اور باقی سورتوں کی طرح ہے۔ لہٰذا اس کے پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس میں ابولہب کا حال بیان ہوا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس پر اور اس کی بیوی پر خسارہ اور جہنم میں داخل ہونے کا حکم لگایا ہے کیونکہ وہ دونوں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھ پہچانتے تھے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنی کتاب کریم میں فرمایا ہے:
﴿فَاقْرَؤا مَا تَیَسَّرَ مِنْہُ﴾
’’قرآن سے جو کچھ میسر آئے، پڑھو۔‘‘(المزمل: ۲۰)
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو، جس نے نماز بگاڑ کر ادا کی تھی، کہا: ’’پھر قرآن جو تجھے یاد ہو اس سے جتنا آسانی سے پڑھ سکو، پڑھو۔‘‘ یہ قرآنی نص اور نبوی نص سورت تبت کو اسی طرح عام ہیں جیسے باقی سورتوں کو۔ خلاصہ یہ ہے کہ اے سائلہ! آپ ہی راہ صواب پر ہیں۔ رہا تمہاری بہن کا معاملہ تو وہ غلطی پر ہے تو اسے اپنی بات پر اور اس سورت کو نماز میں پڑھنے کو اچھا نہ سمجھنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ اس نے قول باطل اور اللہ تعالیٰ پر بغیر علم کے بات کہی… ہم اپنے لیے، آپ کے لیے اور آپ کی بہن کے لیے اللہ تعالیٰ سے ہدایت اور توفیق کی دعا کرتے ہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب