السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
دو بہنیں ہیں، ایک کے ہاں بیٹا پیدا ہوا اور دوسری کے ہاں چار بچے پیدا ہوئے، جن میں سب سے چھوٹی بیٹی ہے۔ پہلی بہن کے بیٹے نے دوسری بہن کے تینوں بیٹوں کے ساتھ اس کا دودھ پیا ہے۔ البتہ چوتھے بچے یعنی بیٹی کے ساتھ نہیں پیا۔
پہلی بہن کے بیٹے کی، دوسری بہن کی اس بیٹی سے، جس نے اس کے ساتھ دودھ نہیں پیا، شادی کا کیا حکم ہے؟ (ایک سائل)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جب پہلی بہن کے بیٹے نے دوسری بہن کا دودھ پانچ گھونٹ یا اس سے زیادہ گھونٹ پی لیا خواہ یہ ایک مجلس میں ہو یا کئی مجلسوں میں، اور خواہ دوسری بہن کے پہلے بیٹے کے ساتھ، یا دوسرے کے ساتھ یا تیسرے کے ساتھ یا سب کے ساتھ، تو وہ دوسری بہن کا رضاعی بیٹا ہے اور اس کی ساری اولاد کا بھائی ہے۔ خواہ وہ اولاد اس سے پہلے کی ہو یا بعد کی ہو اور مذکورہ بیٹی کا نکاح پہلی بہن کے بیٹے سے جائز نہیں۔ کیونکہ وہ اس کا رضاعی بھائی ہے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ محرمات کی وضاحت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
﴿وَ اُمَّہٰتُکُمُ الّٰتِیْٓ اَرْضَعْنَکُمْ وَ اَخَوٰتُکُمْ مِّنَ الرَّضَاعَة﴾
’’اور تمہاری مائیں بھی جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہے اور تمہاری رضاعی بہنیں بھی (تم پر حرام کی گئیں ہیں)‘‘ (النساء: ۲۳)
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((یَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعِ مَا یَحْرُمُ مِنَ النَّسَب))
’’رضاعت سے وہ سب رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو نسب سے حرام ہوتے ہیں۔‘‘
اور اگر رضاعت پانچ گھونٹ سے کم ہو تو اس سے حرمت واقع نہیں ہوتی۔ اسی طرح اگر دودھ پینے والا دو سال سے بڑا ہو تو بھی اس کی رضاعت سے حرمت واقع نہیں ہوتی۔ کیونکہ اللہ عزوجل فرماتے ہیں:
﴿وَ الْوَالِدٰتُ یُرْضِعْنَ اَوْلَادَہُنَّ حَوْلَیْنِ کَامِلَیْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَة﴾
’’اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں۔ یہ حکم اس شخص کے لیے ہے جو پوری مدت دودھ پلوانا چاہے۔‘‘ (البقرۃ: ۲۳۳)
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
((لا رضاع اِلا ما فتق الامعاء وکان قبل الفطام))
’’رضاعت وہی معتبر ہے جس سے آنتیں تر ہوں اور یہ دودھ چھڑانے سے پہلے ہو۔‘‘
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((کَانَ فِیمَا أُنْزِلَ مِنَ الْقُرْآنِ عَشْرُ رَضَعَاتٍ مَّعْلُومَاتٍ یُّحَرِّمْنَ ثُمَّ نُسِخْنَ بِخَمْسٍ مَعْلُومَاتٍ فَتُوُفِّیَ النَّبیُ صلی اللّٰہ علیہ وسلم والامرُ علی ذلِکَ))
’’جو کچھ قرآن میں نازل ہوا وہ معلومہ دس گھونٹ تھے جو حرمت کا سبب بنتے تھے۔ پھر یہ حکم پانچ معلوم گھونٹوں کے حکم سے منسوخ ہوگیا۔ پھر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی تو عمل اسی بات پر تھا۔‘‘
اسے مسلم نے اپنی صحیح میں اور ترمذی نے اپنی جامع میں روایت کیا اور یہ الفاظ ترمذی کے ہیں… اور توفیق عطا کرنے والا تو اللہ تعالیٰ ہی ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب