سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(219) نذر کے احکام

  • 7939
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-05
  • مشاہدات : 1073

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں نے امتحان سے پہلے کسی دن یہ نذر مانی تھی کہ اگر میں چھٹی جماعت سے پاس ہو کر پہلی متوسط کلاس میں چلا گیا تو قربانی کروں گا اور میں دوسری کوشش میں کامیاب ہوا، پہلی دفعہ نہ ہوا۔ کیا اب میں قربانی دوں گا یا نہیں؟ بات یہی تھی۔ اس پر چار سال گزر گئے اور میں نے اس نذر کو پورا نہ کیا یہ سمجھتے ہوئے کہ میں نے تو ایسی نذر مانی تھی کہ جب میں تیسری متوسط کلاس سے کامیاب ہو کر پہلی ثانوی میں چلا گیا… اب جب میں کامیاب ہو کر اول ثانوی میں چلا گیا ہوں تو کیا اب میں ایک قربانی دوں یا دو؟ (عبدالرحمن۔ س۔ ع)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جب آپ نے نذر کو غیر مشروط رکھا اور پہلے دور میں کامیاب ہو کر جانے کی نیت نہیں تھی تو آپ کو اپنی نذر پوری کرنا لازم ہے کہ آپ اللہ کی رضا کے لیے قربانی کر کے اسے فقراء میں تقسیم کر دیں اور اس میں سے آپ خود آپ کے گھر والے کچھ نہ کھائیں۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

((مَنْ نَذَرَ انْ یُطیعَ اللّٰہَ، فَلْیُطِعْہ۔ ومَنْ نَذَرَ انْ یَعْصِیَ اللّٰہَ؛ فلَا یَعْصِہ))

’’جس نے اللہ تعالیٰ کی فرمان برداری کرنے والی نذر مانی اسے چاہیے کہ وہ اسے پورا کرے اور جس نے اللہ کی نافرمانی والی بات کی نذر مانی، اسے چاہیے کہ وہ اسے پورا نہ کرے۔‘‘

اس حدیث کو بخاری نے اپنی صحیح میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے نکالا۔

اور اگر آپ نے پہلی کوشش میں کامیابی کی نذر مانی لیکن کامیاب دوسری کوشش میں ہوئے تو آپ پر کچھ نہیں۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

((انَّمَا الْاَعْمَالُ بالنِّیَاتِ، واِنَّمَا لکُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَی))

’’اعمال کا انحصار نیتوں پر ہے اور ہر ایک کے لیے وہی کچھ ہے جو اس نے نیت کی ہو۔‘‘

اس حدیث پر شیخین کا اتفاق ہے اور یہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے۔

اسی طرح آپ کی وہ نذر ہے کہ جب آپ متوسط ثانوی میں کامیاب ہوگئے تو اسے پورا کرنا آپ پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی مذکورہ حدیث کے مطابق لازم ہے۔

اور اگر آپ نے پہلی یا دوسری نذر یوں مانی تھی کہ اپنے گھر والوں، اقرباء اور ہمسایوں کے لیے قربانی کریں گے تو اپنی نیت پر عمل کریں۔ جیسا کہ ابھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ والی حدیث کا ذکر ہوا ہے۔

اے بھائی! آپ کو چاہیے کہ آئندہ کبھی نذر نہ مانا کریں کیونکہ نذر اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے کچھ بھی لوٹا نہیں سکتی۔ نہ ہی یہ کامیابی کے اسباب میں سے کوئی سبب ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نذر ماننے سے منع کیا اور فرمایا: ’’نذر کوئی بھلائی نہیں لاتی۔ البتہ اس طرح بخیل سے کجھ مال نکل جاتا ہے۔‘‘ جیسے کہ یہ صحیحین میں ابن عمر رضی اللہ عنہ والی حدیث سے ثابت ہے۔

ہم اپنے لیے اور آپ کے لیے ہدایت اور توفیق کی دعا کرتے ہیں۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ابن بازرحمہ اللہ

جلداول -صفحہ 205

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ