السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں ایک دور کے ملک میں شادی شدہ عورت ہوں۔ میرے خاندان والے دیندار نہیں۔ صرف روزے رکھتے ہیں، لیکن کوئی بھی نماز ادا نہیں کرتا… اپنی شادی سے پہلے مجھے چند نوجوان لڑکیوں کے متعلق معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ہدایت دی ہے… انہوں نے پردہ کرنا شروع کر دیا۔ اور اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے میں نے بھی پردہ شروع کر دیا۔ میں نماز ادا کرنے لگی اور قرآن پڑھنا، اسے حفظ کرنا، فقہ کے اکثر مسائل اور دین اسلام کے احکام کا مطالعہ شروع کر دیا۔ میرے گھر والے میرا مذاق اڑاتے رہے اور جب بھی میں انہیں کچھ نصیحت کرتی تو مجھ سے لڑنا شروع کر دیتے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک دیندار نوجوان عطا کیا اور میں نے اپنے گھر والوں کی مرضی سے اس سے شادی کی۔ اس کے باوجود وہ ہماری ہر بات اور ہر طور طریقے پر ہنستے اور ہمارا مذاق اڑاتے تھے۔ ان کا مجھ سے سب سے زیادہ مطالبہ پردہ ترک کرنے کا ہوتا۔ وہ میرے خاوند کا بھی مذاق اڑاتے کیونکہ وہ غریب تھا۔
اللہ تعالیٰ نے ہم پر احسان کیا اور میں اور میرا خاوند کام کرنے کی غرض سے سعودی عرب چلے آئے۔ میرے گھر والے آج تک مجھے چٹھیوں اور دوسرے طریقوں سے ٹھٹھا اور مذاق کی باتیں لکھ کر بھیجتے رہتے ہیں اور مجھے کہتے ہیں کہ اپنے خاوند سے طلاق کا مطالبہ کرو اور ہمیشہ اس پر ترغیب دیتے ہیں اور میری اس صورت حال پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے اور مجھے پس ماندگی کا طعنہ دیتے ہیں۔
یہ ہے میری مشکل، مجھے امید ہے کہ آپ میری رہنمائی فرمائیں گے کہ میں کیا کروں؟ (عائشہ۔ عنیزہ)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر بات ایسی ہے جو آپ نے کہی ہے تو آپ اللہ تعالیٰ کی ثنا کریں اور اس بات پر اللہ تعالیٰ کا بہت بہت شکر ادا کریں کہا س نے آپ کو علمی اور عملی دونوں طرح اسلام کی راہ دکھلائی اور تمہیں نیک خاوند عطا فرمایا جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر آپ کی مدد کرتا ہے۔
اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جو اس نے تم دونوں پر انعام کیا ہے۔ لہٰذا تم دونوں پر لازم ہے کہ اس کا شکر اور ذکر کرتے رہا کرو۔ اللہ تعالیٰ تم پر اپنا فضل اور زیادہ کرے گا اور تمہیں حق پر ثابت قدم رکھے گا۔ جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿وَ اِذْ تَاَذَّنَ رَبُّکُمْ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزٍیْدَنَّکُمْ﴾
’’اور جب تمہارے پروردگار نے اعلان کیا کہ اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا۔‘‘ (ابراہیم: ۷)
نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَاذْکُرُوْنِیْٓ اَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوْا لِیْ وَ لَا تَکْفُرُوْنo﴾
’’مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد رکھوں گا۔ میرا شکر ادا کرتے رہو، ناشکری نہ کرو۔‘‘(البقرۃ: ۱۵۲)
اور جس بات کی میں آپ کو وصیت کرنا چاہتا ہوں وہ ہے اللہ تعالیٰ کا تقویٰ، اس کے دین میں سمجھ پیدا کرنا، اپنے خاوند کا پوری طرح ساتھ دینا، معرو ف کاموں میں اس کی بات سننا اور اطاعت کرنا، اس سے جدا ہونے کے سلسلہ میں یا دوسرے گناہ کے کام میں اپنے گھر والوں کی اطاعت نہ کرنا۔
اور میں تم دونوں کو یہ وصیت کرتا ہوں کہ اپنے گھر والوں سے نیکی، تقویٰ اور احسان پر تعاون کرنا، ان کے لیے ہدایت اور درستی کی دعا کرتے رہنا اور ان کی بری باتوں کا احسان اور صدقہ سے جواب دینا۔ مگر انہیں زکوٰۃ نہ دینا کیونکہ جو فقیر نماز نہ پڑھتا ہو اسے زکوٰۃ نہیں دی جا سکتی۔ اس لیے کہ نماز چھوڑنا کفر اکبر ہے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
((الْعَھْدُ الَّذی بینَنا وبینَھمُ الصَّلاۃُ، فَمَنْ تَرَکَھا فَقَدْ کَفَرَ))
’’ہمارے اور ان لوگوں کے درمیان عہد نماز ہے۔ لہٰذا جس نے اسے چھوڑ دیا۔ اس نے کفر کیا۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد اور اہل السنن نے صحیح اسناد کے ساتھ نکالا ہے۔
بات یہی ہے اور میں آپ کے لیے اور آپ کے خاوند کے لیے حق پر ثابت قدم رہنے اور دین میں تفقہ اور گمراہ کن فتنوں سے عافیت کی دعا کرتا ہوں… بے شک وہ سننے والا بھی ہے اور قریب بھی۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب