السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک ہی مجلس میں ایک کلمہ سے تین طلاق کو یا متفرق تین بار تین طلاق کہنے کو حرام اور ایسا کرنے والے کے گنہگار ہونے کو معتبر سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اکثر علماء نے اس میں بہت اختلاف کیا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ تین طلاقیں واقع ہو جاتی ہیں، دوسرے کہتے ہیں کہ ایک ہی واقع ہوگی اور ایک دوسرا فریق کہتا ہے کہ ایک بھی واقع نہیں ہوتی کیونکہ یہ طلاق بدعی ہے اور جو چیز اللہ تعالیٰ نے مشروع کی تھی، اس کے مخالف ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ وہ حکم صحیح کیا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو؟ میں جانتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ نے تین طلاقوں کو ایک بنا دیا تھا جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ:
رکانہ نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاقیں دیں۔ پھر انہیں اس بات پر سخت غم لگ گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ ’’تم نے طلاق کیسے دی تھی۔‘‘ رکانہ کہنے لگے۔ تین طلاق۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ’’کیا ایک ہی مجلس میں؟‘‘ رکانہ نے جواب دیا! ’’ہاں۔‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ ایک ہی طلاق ہے۔ اگر تو چاہتا ہے تو اس سے رجوع کرلے۔‘‘ چنانچہ رکانہ نے اپنی بیوی سے رجوع کرلیا۔‘‘(سلیمان۔ م۔ طیبہ کالج ریاض)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس مسئلہ میں درست بات یہ ہے کہ اگر مرد ایک کلمہ سے اپنی عورت کو تین طلاقیں دے تو وہ ایک ہی شمار ہوگی۔ جیسا کہ امام مسلم نے اپنی صحیح میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور میں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے پہلے دو سال تک تین طلاقیں ایک ہی طلاق شمار ہوتی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ لوگ اس معاملہ میں جلدی کرنے لگے ہیں جس میں ان کے لیے مہلت تھی۔ تو اب کیوں نہ ہم اسے تین طلاق ہی نافذ کر دیں چنانچہ آپ نے لوگوں پر تین طلاقیں ہی نافذ کر دیں۔‘‘
ابن عباس رضی اللہ عنہ کے شاگردوں میں سے اہل علم کی ایک جماعت اور کئی دوسروں نے بھی اس بات کو اختیار کیا ہے اور امام محمد بن ا سحاق صاحب السیرۃ بھی اس بات کے قائل ہیں اور شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ اور ان کے شاگرد علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے بھی یہی بات اختیار کی ہے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ہی یہ بات بھی پسند کی ہے کہ دوسری اور تیسری طلاق صرف نکاح یا رجعت کے بعد ہی واقع ہوں گی اور اس کی کئی وجوہ بھی ذکر کی ہیں۔ لیکن میں دلائل شرعیہ سے ایسی کوئی چیز نہیں جانتا جو ان کے دوسرے قول کی تائید کرتی ہو۔ نہ ہی میں صحابہ رضی اللہ عنہم سے کوئی ایسی چیز جانتا ہوں جو اس کی مؤید ہو اور درست بات یہی ہے کہ جب ایک ہی کلمہ سے تین طلاق کہا جائے تو اسے اسی حد تک محدود رکھا جائے (یعنی ایک ہی طلاق سمجھا جائے)۔
رہی ابو رکانہ والی حدیث تو وہ اس موضوع میں صریح نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کی سند میں بھی کلام ہے جو معروف ہے کہ داؤد بن حصین عکرمہ سے روایت کرتے ہیں اور اس روایت کو ایک جماعت نے کمزور قرار دیا ہے۔ جیسا کہ یہ بات تقریب اور تہذیب اور ان کے علاوہ دوسری کتابوں میں داؤد بن حصین کے بیان سے معلوم ہو سکتی ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب