سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(184) منگنی چاہنے والا اگر کفو ہے تو اسے روکنا معروف کام نہیں

  • 7905
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1302

سوال

(184) منگنی چاہنے والا اگر کفو ہے تو اسے روکنا معروف کام نہیں

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں اپنی مشکل کا حل چاہتی ہوں کہ میں ۲۴ سال کی عمر کو پہنچ چکی ہوں۔ ایک نوجوان نے میرے رشتہ کے لیے پیش رفت کی۔ وہ جامعہ کی تعلیم مکمل کر چکا ہے اور دیندار خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ میرے باپ نے اس بات پر موافقت کی۔ میرے باپ نے ایک مجلس میں مجھے حاضر ہونے کو کہا تا کہ میں اس نوجوان کو دیکھ لوں اور وہ مجھے دیکھ لے۔ میں نے اسے پسند کر لیا اور اس نے مجھے پسند کر لیا۔ میں جانتی تھی کہ ہمارے دین حنیف میں اس بات پر نص موجود ہے کہ میں اسے دیکھ لوں اور وہ مجھے دیکھ لے۔ جب میری والدہ کو معلوم ہوا کہ وہ نوجوان دیندار خاندان سے تعلق رکھتا ہے تو اس نے اس نوجوان پر اور میرے والد پر دنیا کھڑی کر دی اور قسم کھا لی کہ جو بھی صورت میں اس کام کو نہ ہونے دوں گی۔ میرے والد نے اس کے ساتھ بہتیرے جتن کیے لیکن سب بے سود… کیا میرے لیے یہ حق ہے کہ میں شرع سے مطالبہ کروں کہ وہ میرے معاملہ میں دخل اندازی کرے؟ (مولوۃ۔ ح۔ع)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر فی الواقع وہی بات ہے جس کا سائلہ نے ذکر کیا ہے تو اس کی ماں کو اس معاملہ میں اعتراض کا کوئی حق نہیں۔ بلکہ یہ بات اس پر حرام ہے اور اے سائلہ! اس معاملہ میں تم پر اپنی ماں کی اطاعت لازم نہیں۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

((انما الطاعة فی المعروف))

’’اطاعت صرف معروف کاموں میں ہے۔‘‘

اور ایسے منگنی والے کو جو کفو ہو، رد کرنا معروف کام نہیں بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

((اذا خَطَبَ الیکُم مَنْ تَرْضَوْنَ دینَہ وخُلُقَہ فزوِّجُوہ، الاَّ تَفعَلُوا؛ تَکُنْ فتنة في الارضِ وفسادٌ کبیرٌ))

’’جب کوئی شخص تمہیں منگنی کے لیے کہے جس کے دین اور اخلاق تمہیں پسند ہوں تو اس سے شادی کر دو۔ اگر ایسا نہ کرو گے تو ملک میں فتنہ اور بہت بڑا فساد بپا ہو جائے گا۔‘‘

اور اگر آپ کو یہ معاملہ شرعی عدالت میں لے جانا پڑے تو اس میں بھی آپ پر کوئی تنگی نہیں۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ابن بازرحمہ اللہ

جلداول -صفحہ 165

محدث فتویٰ

تبصرے