مولانا اشرف علی تھانوی نے اپنے رسالہ الاقتصاد میں لکھا ہے کہ :
قیام میں ہاتھ زیرناف باندھے ۔ ابوداؤد نسخہ الاعرابی جلد اول ص 117 میں ابی حجیفہ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ سنت طریقہ یہ ہے کہ نماز میں ناف کے نیچے ہاتھ رکھا جائے۔ اور ابوائل سے روایت ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہاتھ کا پکڑنا ہاتھ سے نماز کے اندر ناف کے نیچے ہے ۔ (روایت کیا ان دونوں حدیثوں کوابوداؤد نے)
کیا مولوی اشرف علی کابیان کردہ مسئلہ یہ درست ہے۔۔؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مولوی اشرف علی نے بہت خیانت کی ہے۔ پھر لطف یہ ہے کہ سینہ پر ہاتھ باندھنے کی صحیح حدیث بلوغ المرام میں موجود ہے اس کا نام تک نہیں لیا۔تاکہ کسی کو صحیح حدیث کا پتہ نہ لگ جائے اور وہ حدیث یہ ہے۔
یعنی وائل بن حجر سے روایت ہے کہتے ہیں کہ میں نےنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی آپ نے اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ پر اپنے سینہ پر رکھا ۔ ابن خزیمہ نے اس کو نکالاہے۔
اس حدیث سے ظاہر ہے کہ نماز میں ہاتھ سینہ پر باندھے جائیں۔
وباللہ التوفیق