سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(159) سودی بنکوں میں امانت رکھنے کا حکم

  • 7881
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1395

سوال

(159) سودی بنکوں میں امانت رکھنے کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اگر کسی کے پاس کچھ نقد رقم ہو اور وہ حفاظت کی خاطر اسے امانت کے طور پر کسی بنک میں رکھے اور سال کا عرصہ گزرنے پر اس کی زکوٰۃ ادا کردے تو کیا یہ اس کے لیے جائز ہے یا نہیں؟ ہمیں مستفید فرمائیے۔ اللہ آپ کو بہتر جزاء عطا فرمائے۔‘‘(عمری۔ ع۔ع۔جدہ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سودی بنکوں میں امانت رکھنا جائز نہیں، خواہ وہ اس پر سود نہ لے۔ کیونکہ اس کام میں گناہ اور سرکشی پر اعانت ہے۔ جبکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس سے منع کیا ہے۔ لیکن جب کوئی شخص اس کام پر مجبور ہو اور سود نہ لے اور اپنے مال کی حفاظت کے لیے سودی بنک کے علاوہ اور کوئی جگہ نہ پائے تو مجبوری کی بنا پر (ان شاء اللہ) اس میں کوئی حرج نہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿وَ قَدْ فَصَّلَ لَکُمْ مَّا حَرَّمَ عَلَیْکُمْ اِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ اِلَیْہِ﴾ (الانعام: ۱۱۹)

’’اور جو کچھ اللہ نے تم پر حرام کیا ہے، اسے کھول کر بیان کر دیا ہے۔ الا یہ کہ تم کسی بات پر مجبور ہو جاؤ۔‘‘

اور جب کوئی اسلامی بنک یا امانت رکھنے کی جگہ پا لے جس میں گناہ اور سرکشی پر تعاون کی صورت نہ ہو تو اپنا مال اس میں امانت رکھے۔ اب اس کے لیے سودی بنک میں امانت رکھنا جائز نہ ہوگا۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ابن بازرحمہ اللہ

جلداول -صفحہ 149

محدث فتویٰ

تبصرے