سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(155) سودی بنکوں کی ملازمت

  • 7877
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2097

سوال

(155) سودی بنکوں کی ملازمت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرا چچا زاد بھائی بنک الجزیرہ میں کلرک ہے۔ اسے بعض علماء نے فتویٰ دیا کہ وہ یہ ملازمت چھوڑ دے اور بنک کے علاوہ کوئی اور کام تلاش کرے۔ آپ کو اللہ بہتر جزا عطا فرمائے، ہمیں مستفید فرمائیے کہ آیا یہ ملازمت جائز ہے یا نہیں؟ (عمری۔ع۔ع۔ جدہ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جس شخص نے اسے مذکورہ فتویٰ دیا، اس نے بہت اچھا کام کیا۔ کیونکہ سودی بنکوں کی ملازمت جائز نہیں۔ اس لیے کہ یہ گناہ اور سرکشی پر بنک کی اعانت ہے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿وَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِo﴾ (المآئدۃ: ۲)

’’اور نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور زیادتی کے کاموں میں نہ کیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ بے شک اللہ کا عذاب سخت ہے۔‘‘

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ ’’آپ نے سود کھانے والے، کھلانے والے، اس کی تحریر لکھنے والے اور اس کے دونوں گواہوں، سب پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ یہ سب لوگ گناہ میں برابر کے شریک ہیں۔‘‘ اس حدیث کو مسلم نے اپنی صحیح میں نکالا۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ابن بازرحمہ اللہ

جلداول -صفحہ 145

محدث فتویٰ

تبصرے