بیع میں اگر نقد کی نسبت ادھار یا قسطوں پر قیمت زیادہ ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟ (احمد۔م۔ا)
معلوم مدت والی بیع جائز ہے جبکہ اس بیع میں معتبر شرائط پائی جاتی ہوں ۔ اسی طرح قیمت کی قسطیں کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں جبکہ یہ اقساط معروف اور مدت معلوم ہو۔ چنانچہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں :
{یٰٓا أَ یُّہَا الَّذِیْْنَ اٰمَنُوْْٓا اِذَا تَدَایَنْْتُمْْ بِدَیْْنٍ اِلٓٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی فَاکْْتُبُوْْہُ} (البقرۃ: ۲۸۲)
’’اے ایمان والو! جب تم ایک مقررہ مدت کے ادھار پر لین دین کرو تو اسے لکھ لیا کرو۔‘‘
نیز رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((مَنْ أَسْلَفَ فِی شَیْئٍ فَفِی کَیْلٍ مَعْلُومٍ وَوَزْنٍ مَعْلُومٍ إِلَی أَجَلٍ مَعْلُومٍ))
’’جب کوئی شخص کسی چیز میں بیع سلم کرے تو ناپ تول اور مدت معین کر کے کرے۔‘‘
اور بریرہ رضی الله عنها سے متعلق جو صحیحین میں ثابت ہے کہ انہوں نے اپنے آپ کو اپنے مالکوں سے نو اوقیہ میں خرید لیا کہ ہر سال ایک اوقیہ (چاندی) ادا کی جائے گی اور یہی قسطوں والی بیع ہے اور نبیﷺ نے اس بیع کو معیوب نہیں سمجھا بلکہ خاموش رہے اور اس سے منع نہیں کیا اور اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ قسطوں میں قیمت نقد کے برابر ہو یا مدت کی وجہ سے زیادہ ہو… اور توفیق دینے والا تو اللہ تعالیٰ ہی ہے۔
ماخذ:مستند کتب فتاویٰ