سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(149) لوگ لین دین تو کرتے ہیں لیکن فروختنی سامان اپنی جگہ پڑا رہتا ہے

  • 7871
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 906

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

دونوں طرف ادھار والی بیع کا کیا حکم ہے جو فروختنی اشیئاء کی خرید و فروخت کی طرح کی جاتی ہے اور وہ چیزیں اپنی جگہ پڑی رہتی ہیں اور یہ طریقہ ایسا ہے جو موجودہ دور میں بعض لوگوں کے ادھار لین دین میں رواج پا چکا ہے۔‘‘(ساری ۔غ۔ ا۔ القصیم)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ ایسی چیز کا سودا کرے جس کا وہ ملک نہ ہو اور اس پر قابض نہ ہو چکا ہو۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکیم بن حزام سے فرمایا:

((لا تَبِعْ ما لیسَ عِنْدَکَ))

’’جو چیز تمہارے پاس موجود نہ ہو اس کا سودا مت کرو۔‘‘

اور عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

((لا یَحِلُّ سَلَفٌ و بَیْعٌ ولا بَیْعُ ما لیسَ عِنْدَکَ))

’’ادھار بیع کی شرط پر جائز نہیں اور نہ ہی اس چیز کی بیع جائز ہے جو تمہارے پاس موجود نہ ہو۔‘‘

اس حدیث کو پانچویں محدثین نے اسناد صحیح کے ساتھ روایت کیا۔ اسی طرح مذکورہ دونوں حدیثوں کی رو سے یہ بھی جائز نہیں کہ کوئی شخص کوئی چیز خرید کر جب تک اس پر قبضہ نہ کر لے، وہ اس کی بیع نہیں کر سکتا۔

نیز وہ حدیث جسے امام احمد اور ابوداؤد نے روایت کیا اور اسے ابن حبان اور حاکم نے صحیح قرار دیا کہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

((نَھَی رَسولُ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم انْ تُباعُ السِّلَعُ حیثُ تُبْتاعُ، حتّی یَحُوزَھا التُّجَّارُ الی رِحَالِھم))

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی جگہ فروختنی اشیاء کو فروخت کرنے سے منع فرمایا جہاں وہ خریدی گئیں تاآنکہ تاجر لوگ انہیں اپنے ٹھکانوں پر منتقل نہ کرلیں۔‘‘

نیز اس روایت کی رو سے بھی جسے امام بخاری نے اپنی صحیح میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا۔ وہ کہتے ہیں:

((لَقَدْ رَأَیْتُ النَّاسَ فِی عَہْدِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَبْتَاعُونَ جِزَافًا یَعْنِی الطَّعَامَ یُضْرَبُونَ أَنْ یَبِیعُوہُ فِی مَکَانِہِمْ حَتَّی یُؤْوُوہُ إِلَی رِحَالِہِم))

’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں لوگوں کو دیکھا کہ وہ غلہ کے ڈھیر کا سودا کر لیتے اور اسی جگہ بیچ دینے پر انہیں مار پڑتی تھی۔ تاآنکہ وہ اس ڈھیر کو اپنے ٹھکانوں تک نہ لے جائیں۔‘‘

اور اس معنی میں بہت سی احادیث ہیں۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ابن بازرحمہ اللہ

جلداول -صفحہ 141

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ