نماز عصر کااول وقت کتنے بجے ہوتا ہے۔بخاری میں حدیث ہے کہ ابوامامہ رضی اللہ عنہ خلیفہ عمربن عبدالعزیز کے ساتھ ظہر کی نماز پڑھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ کے پاس مسجد نبوی میں آئے توحضرت انس رضی اللہ عنہ نماز پڑھ کر فارغ ہوئے توآپ نے سوال کیا کہ یہ کونسی نماز پڑھی ہے۔حضرت انس رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ یہ عصرکی نماز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم اس وقت پڑھا کرتے تھے۔ ابوامامہ نے کہا کہ میں نے توظہر کی نماز پڑھی ہے۔حضرت انس رضی اللہ عنہ نےکہا عصر کی نماز اس وقت ہوتی تھی کہ ازواج مطہرات کے حجروں میں دھوپ ہوتی تھی۔صحابہ کرام فرماتے ہیں کہ عصر کی نماز کے بعد ہم اونٹ ذبح کرتے تقسیم کرتے اورپکا کرنماز مغرب سے پہلے کھا لیتے۔نماز عصر ادا کرکےعوالی میں جاتے توسورج متغیر نہ ہوتا تھا۔بعض عوالی کی مسافت چارکوس ہوتی تھی ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ عصر کی نماز کتنے بجے پڑھنی چاہیے ۔نیز سایہ اصلی نکالنے کا طریقہ کیا ہے۔؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
عرب خط استواء کےنیچے آباد ہیں ۔اس لئے ان کاعصر کے بعد کاوقت ہم سے زیادہ ہے مثل کاحساب سب ملکوں کےلئے برابر ہے یہ ایسا ہےجیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مشرق مغرب کےدرمیان قبلہ ہے حالانکہ ہمارقبلہ مغرب میں ہے ۔نیز فرمایا پاخانہ پیشاب کےوقت مشرق مغرب کومنہ کروحالانکہ ہم مغرب میں منہ نہیں کر سکتے۔سوایسے ہی عصر کےوقت کے بیان میں حضر ت عائشہ رضی اللہ عنھا کےحجر ہ کاذکر یا اونٹ کےذبح کاذکر یا عصر پڑھ کر عوالی کےطرف لوٹنے کوسمجھ لینا چاہیئے ۔جامع صورت مثل ہے ۔دوپہر کاسایہ نکال کر جب مثل ہوجائے توعصر کاوقت شروع ہوگیا اوراصل سایہ نکالنے کاطریقہ آسان ہےکہ سورج نکلنے سے غروب ہونےتک جتنا وقت ہے اس کونصف کردیا جائے پس جونصف کےوقت سایہ ہوگا وہ اصلی سایہ ہے۔اور یہ ہرموسم میں تبدیل ہوتا رہتا ہے ۔نومبر دسمبر کاحساب آج کل لگانا غلطی ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دستور تھا کہ وقت شروع ہوتے ہی کھڑ ےنہیں ہوتے تھے بلکہ نمازیوں کواجتماع کے لئے کچھ مہلت دیتے تھے۔چنانچہ ابوداؤدمیں صحیح حدیث ہے کہ آپ گرمیوں میں ظہر تین قدم سے پانچ قدم تک سایہ میں پڑھتے اورسردیوں میں پانچ قدم سے سات قدم تک۔اور یہی اوّل وقت پڑھنے کامعنی ہے جوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل سے بتایا ہے اور امامت جبرئیل کی حدیث میں اور دودن نماز پڑھاکر آپ نے ایک شخص کواوقات بتلائے۔ان دونوں حدیثوں میں تصریح ہے کہ «والوقت بين هذين الوقتين اوکما قا ل» یعنی ابتداء انتہا بتا کر فرمایا کہ وقت ان دونوں کے درمیان ہے۔پس سب حدیثوں کوملاکر عمل کرنا چاہیئے کیونکہ«الاحاديث يفسر بعضها بعضا»یعنی یہ اصولی مسئلہ ہے کہ احادیث ایک دوسری کی تفسیر ہوتی ہیں۔پس اسی طریق سے عمل چاہیئے۔اس بنا پر ہم آج کل کی ظہر کی اذان پونے ایک بجے دیتے ہیں۔اور ایک بجے جماعت کھڑی ہوجاتی ہے۔اور عصر کی اذان پونے چار بجے اورجماعت پورے چار بجے فقط۔
وباللہ التوفیق