السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
طواف کے دوران کعبہ شریف کے جنوب مغربی رکن کی طرف اشارہ کرنے یا اسے چھونے کا کیا حکم ہے؟ اس کے نزدیک کتنی تکبیریں کہنا چاہئیں اور حجر اسود کے نزدیک کتنی؟ ہمیں مستفید فرمائیے۔‘‘(عبدالرحمن۔ع۔۱)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
طواف کرنے والے کے لیے ہر چکر میں حجر اسود اور رکن یمانی کو چھونا جائز ہے۔ جیسا کہ اس کے لیے بالخصوص حجر اسود کو ہر چکر میں بوسہ دینا اور چھونا مستحب ہے۔ حتیٰ کہ آخری چکر میں بھی اگر اسے بغیر مشقت یہ بات میسر آسکے اور اگر مشقت ہو تو اسے دھکم پیل کرنا جائز نہیں۔ اس صورت میں حجر اسود کی طرف ہاتھ سے چھڑی وغیرہ سے اشارہ کر لے اور تکبیر کہے۔
جہاں تک ہمیں معلوم ہے، رکن یمانی کے متعلق کوئی ایسی چیز وارد نہیں ہوئی جو اس کی طرف اشارہ کرنے پر دلالت کرتی ہو۔ اسے صرف چھونا ہی کافی ہے اگر یہ بغیر مشقت کے ممکن ہو اور چومنا نہیں چاہیے اور ساتھ یہ پڑھے:
((بِسْمِ اللّٰہ، وَاللّٰہ اکبرُ یا اللّٰہ اکبرُ))
اور اگر مشقت ہو تو اسے چھونا مشروع نہیں۔ اپنے طواف میں بغیر اشارہ یا تکبیر کے آگے چلتا جائے۔ کیونکہ یہ بات نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے وارد ہوئی ہے، نہ آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم سے۔ جیسا کہ میں نے اپنی کتاب التحقیق والایضاح لکثیر من مَسَائلِ الحجِّ والعُمْرَۃِ والزِّیارۃِ میں واضح کر دیا ہے۔
رہی تکبیر تو وہی صرف ایک بار کہنا چاہیے اور مجھے کوئی ایسی چیز معلوم نہیں جو تکبیر کے زیادہ بار کہنے پر دلالت کرتی ہو۔ حاجی اپنے پورے طواف میں جو شرعی اذکار اور دعائیں آسانی سے پڑھ سکتا ہو، پڑھے اور ہر چکر کو اسی دعا پر ختم کرے۔ جس پر ختم کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثاب ت ہے اور مستند دعا یہ ہے:
﴿رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَة وَّ فِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَة وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِo﴾ (البقرۃ: ۲۰۱)
طواف اور سعی میں تمام اذکار اور دعائیں پڑھنا مستحب ہے، واجب نہیں… اور توفیق دینے والا تو اللہ تعالیٰ ہی ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب