سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(104) نماز پڑھتے وقت دوسری نماز کا وقت

  • 786
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 1731

سوال


السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نماز کا وقت ختم ہونے سے پہلے اگرنمازشروع کردی جائےیانمازکے ممنوع اوقات میں اس سےپہلے نمازشروع کردی جائے اورپھردوسرا غیر وقت شروع ہوجائے تواس وقت کیا کرنا چاہیے۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

حدیث میں ہے:

«من ادرک رکعة من الصبح قبل ان تطلع الفجر فقد ادرک الصبح ومن ادرک رکعة من العصرقبل ان تغرب الشمس فقدادرک العصر» (متفق عليه)

جوطلوع شمس سےپہلے صبح کی ایک رکعت پا لے اس نے صبح کی نماز پا لی اور جوعصر کی ایک رکعت غروبِ آفتاب سےپہلے پا لے اس نے مغرب کی نماز پا لی۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جوشخص وقت ختم ہونے سےپہلے ایک رکعت پا لی وہ بقیہ نماز پڑھ لے اورجماعت کھڑی ہونے کے وقت پہلی نمازکےاخیر رکعت کےرکوع میں جا چکا ہوتوپوری کرے ورنہ توڑ کرجماعت شامل ہوجائے ۔ کیونکہ حدیث میں ہے ۔

«اذا اقيمت الصلوة فلاصلوة الاالتی اقيمت لها۔»

یعنی جب اقامت ہوجائے توپھر کوئی نماز نہیں مگروہی جس کی اقامت ہوئی ہے۔

اس حدیث سے دومسئلے معلوم ہوئے ایک یہ کہ اس حدیث میں اقامت کے بعد نماز کی نفی کی ہے ۔اوریہ بات ظاہرہے کہ نماز کا اقل درجہ ایک ہے جیسے وتر ایک ہی رکعت ہے اوربعض صورتوں میں صلوۃ خوف بھی ایک رکعت ہے۔ایک رکعت سےکم کونماز نہیں کہتے پس ایک رکعت سے کم پڑھ سکتا ہے جس کی صورت یہ ہے کہ اخیررکعت کے رکوع میں جا چکا ہوتو پوری کرے ورنہ توڑدے۔

دوسرا مسئلہ:یہ ہے کہ اقامت کےبعد الگ کوئی نماز نہیں ہونی چاہیے خواہ فرض ہو یا نفل بلکہ امام کے ساتھ شامل ہوجائے۔

نیت :رہی یہ بات کہ نیت کونسی نماز کی کرے۔مثلاً عصر کی نمازہورہی ہے اوراس کی ظہر کی باقی ہے توکیا امام  کےساتھ شامل ہوکرظہر کی نیت کرے یا عصر کی؟عصر کی نیت کرنے کی دلیل اس حدیث کےظاہر الفاظ ہیں کہ اقامت کےبعد وہی نماز ہے جس کی اقامت ہوئی ہے پس عصر کی نیت کرنی چاہیے نیزاگر اتفاقیہ امام کو نماز میں دیرہوگئی اور اس نے اخیروقت میں نماز پڑھائی تواس صورت میں اگر یہ ظہر کی نیت کرے تواس کی دونمازیں ظہروعصر قضا ہوں گی­۔ظہر اس لئے  کہ وہ اپنے وقت پر نہیں  پڑھی گئی بلکہ  عصر کے وقت پڑھی گئی ہے اور عصر اس لئے امام کے پڑھاتے پڑھاتے عصر کا وقت بھی ختم ہوگیا تووہ بھی قضا ہوگئی ۔اگرامام کے ساتھ عصر کی نیت کرے تو عصر اپنے وقت پر ادا ہو گئی۔صرف ظہر قضارہی ۔نیز اگر عشاء کی اقامت ہوتو مغرب کی نماز کی نیت کرنے میں خلل واقع ہوگا وہ اس طرح کہ امام کے ساتھ چوتھی رکعت پڑھے تومغرب کی چارہوجائیں گی۔ اگرتیسری پڑھ کربیٹھا رہے اور جب امام چوتھی پڑھ کرسلام پھیرےاس صورت میں سلام سے پہلے درمیان میں امام کی مخالفت لازم آئے گئی جو سوائے مجبوری کے ٹھیک نہیں ۔

ظہر کی یا مغرب کی نیت کرنے کی دلیل یہ ہے کہ عصر اورفجر کی نماز کے بعد وقت مکروہ ہے مگرامام کے ساتھ عصر کی نیت کرےتوظہر مکروہ وقت میں  پڑھنی پڑے گی۔اگردیرکرے توخطرہ ہے موت واقعہ ہونے سے کہیں  قرض ہی ذمے نہ رہ جائے ۔نیز اگرظہر کی نیت کرے یا مغرب  کی نیت کرے تو اس میں ترتیب محفوظ رہتی ہے اگرعصر یا عشاء کی نیت کرے او رظہر عصر کے بعد اور مغرب عشاء کے بعد پڑھے توپہلی نماز پیچھے ہوجائے گی۔ اور پچھلی  پہلے ۔ حالانکہ پہلی پہلے فرض ہے اور پچھلی  پیچھے ۔اگربالفرض پچھلی نماز پڑھتے مرجائے تو پہلی کا  گناہ اس کےذمے رہا  اوراگرپہلی پڑھ کرمرجائے توپچھلی کے بدلے اس کومواخذہ نہیں۔  کیونکہ اس کاوقت باقی ہوتا ہے۔غرض دونوں طرف کچھ کچھ دلائل ہیں اس لئے اختیا رہے کہ پہلی کی نیت کرے یا پچھلی کی۔

نوٹ:بعض لوگ کہتے  ہیں کہ عصر یا فجر کے بعد فرضی نما ز کی قضا یہ دینی چاہیے ۔کیونکہ ان وقتوں میں نماز مکروہ ہے ۔مگریہ ان لوگوں  کی غلطی ہے کیونکہ مکر وہ وقتوں میں قضا منع   نہیں ہے ۔ظہر کی قضا عصر کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے ثابت  ہے (اگرنماز استخارہ اور نماز حاجت کا وقت تنگ ہوجیسے سفر کرنے کے وقت  فی الفور استخا رہ کرنا  ہو یا ایسے فوری طور پرنمازحاجت پڑھنی ہو تواس صورت میں یہ سببی نماز میں داخل ہوسکتی ہے) اورفجرکی سنتیں رہ جائیں  تووہ بھی فجر کی نماز کے بعد پڑھنی ثابت  ہیں ۔چنانچہ ہم نے رسالہ (امتیازی مسائل ) میں اس کی تفصیل کی ہے تو فرضوں  کی قضا بطریق اولیٰ جائز ہوگی۔ کیونکہ ان کا معاملہ اہم ہے نیز خدانخواستہ دیرکرنے کی صورت میں مرگیا  توفرض ذمہ رہ گئے یہ کتنے  بڑے خطرہ  کا  مقام ہے اس لئے فرضوں کی قضا میں  بہت جلدی کرنی چاہیے۔

وباللہ التوفیق

فتاویٰ اہلحدیث

کتاب الصلوۃ،نماز کا بیان، ج2 ص72 

محدث فتویٰ


ماخذ:مستند کتب فتاویٰ