السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
:… ایک شخص نے مسجد کی کمیٹی کو کچھ مال دیا اور کہا کہ مثلاً اس مال سے طہارت خانے بنائے جائیں لیکن بعد میں کمیٹی کی کثرت رائے یہ ہوگئی کہ وہ یہ رقم کسی دوسرے کام میں استعمال کر لے، جس کو صاحب مال نے مخصص نہیں کیا تھا۔ اس کا کیا حکم ہے؟ (خالد۔ ح۔ الریاض)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بہتر اور محتاط صورت تو یہی ہے کہ رقم دینے والے نے جس خاص کام کے لیے رقم دی ہے، اسی کام میں خرچ ہو جبکہ وہ کام مشروع ہو۔ جیسا کہ طہارت خانے اور وضو کرنے کی جگہیں یا کوئی اور مباح کامہو۔ لیکن اگر تعمیر مسجد کمیٹی یہ دیکھے کہ اس کام سے مسجد کی تعمیر زیادہ ضروری ہے اور وہ اس میں خرچ کر دے تو اس میں بھی انشاء اللہ کوئی حرج نہیں۔ کیونکہ نفع کے لحاظ سے تعمیر مسجد کا کام بہر حال مسجد کے اردگرد وضو کی جگہیں بنانے سے افضل واعظم ہے اور یہاں یہی بات ہے۔ کیونکہ مسجد کی تعمیر ہی مقصود اول ہے اور طہارت خانوں کی تعمیر تو نمازیوں کی کثرت اور نماز کی ادائیگی کی سہولت کی خاطر وسائل واعانت کے باب سے ہے… اور توفیق دینے والا تو اللہ تعالیٰ ہی ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب