سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(114) اپنی والدہ اور اپنے بھائی کو زکوت دے سکتا ہوں ؟

  • 7837
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1355

سوال

(114) اپنی والدہ اور اپنے بھائی کو زکوت دے سکتا ہوں ؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرے پاس اتنا مال ہے جس میں زکوٰۃ واجب ہے۔ اس رقم میں ایک قسم وہ ہے جو مجھ پر قرض ہے جو میں نے موسسۃ عامہ سے جو بلا سود پیشگی قرضے دیتا ہے، لیا تھا۔ اس قرضہ پر اور باقی رقم پر سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ تو کیا اس رقم پر بھی زکوٰۃ واجب ہوگی جو میرے ذمہ قرضہ ہے؟

کیا میں اس مال سے اپنی والدہ کو کچھ رقم دے سکتا ہوں۔ اس خیال سے کہ وہ زکوٰۃ ہے؟ یہ بات ملحوظ رہے کہ میرا والد اس پر خرچ کرتا ہے اور الحمد للہ اس کی حالت ٹھیک ٹھاک ہے۔ اسی طرح میرا ایک بھائی ہے جو کام کرنے پر قادر ہے لیکن ابھی تک اس کی شادی نہیں ہوئی اور وہ (اللہ اسے ہدایت دے) اکثر نمازوں کی محافظت نہیں کرتا۔ کیا میں اسے زکوٰۃ میں سے کچھ دے سکتا ہوں؟ مجھے مستفید فرمائیے۔ اللہ آپ کا نگہبان ہو۔‘‘(خالد۔ن۔ ظہران الجنوب)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جو رقم آپ کے پاس موجود ہے، اس پوری رقم کی زکوٰۃ نکالنا آپ پر واجب ہے جبکہ اس پر سال کا عرصہ گزر چکا ہے اور علماء کے دو اقوال سے میں صحیح تر قول کے مطابق موسسۃ کا قرضہ اس ادائیگی میں مانع نہیں۔

لیکن اگر آپ موسسہ کا قرضہ سال پورا ہونے سے بیشتر ادا کر دیتے ہیں تو جو کچھ قرضہ کی ادائیگی میں صرف ہو جاتا اس پر زکوٰۃ نہ ہوتی۔ زکوٰۃ صرف اس مال پر ہوتی جو سال گزرنے پر قرضہ کی ادائیگی کے بعد باقی رہ جاتا اور وہ نصاب کی حد کو پہنچتا۔

چاندی کا کم سے کم نصاب اور جو کچھ سعودی عرب کی موجودہ کرنسی کے حساب سے بنتا ہے وہ ۵۶ ریال ہے۔

آپ کے لیے یہ جائز نہیں کہ آپ زکوٰۃ میں سے اپنی والدہ کو کچھ دیں۔ کیونکہ والدین میں سے کسی کو بھی زکوٰۃ نہیں لگتی۔ علاوہ ازیں وہ غنی ہے۔ جس پر آپ کا والد خرچ کرتا ہے۔

رہا تمہارا بھائی! تو جب تک وہ تارک نماز ہے، زکوٰۃ اسے بھی نہیں لگ سکتی۔ کیونکہ نماز ارکان اسلام میں شہادتین کے بعد سب سے بڑا رکن ہے۔ اس لیے بھی کہ نماز کو عمداً چھوڑنا کفر اکبر ہے اور اس لیے بھی زکوٰۃ اسے نہیں لگ سکتی کہ وہ طاقتور اور کمانے کے قابل ہے اور اگر اس پر کچھ خرچ کرنے کی ضرورت ہے تو اس کا باپ اس کا زیادہ حقدار ہے کیونکہ خرچ اخراجات کے پہلو سے وہی جواب دہ ہے۔ جب تک کہ وہ اس کی طاقت رکھتا ہے۔

اللہ تعالیٰ اسے ہدایت دے اور حق کی راہ دکھلائے اور اپنے نفس، شیطان اور برے دوستوں کے شر سے پناہ میں رکھے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ابن بازرحمہ اللہ

جلداول -صفحہ 117

محدث فتویٰ

تبصرے