السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک آدمی کے پاس بہت سے مکان ہیں۔ جنہیں اس نے کرایہ پر دیا ہوا ہے اور وہ ان سے سال بھر میں بہت سا سال اکٹھا کر لیتا ہے۔ کیا اس مال پر زکوٰۃ ہے اور وہ کب واجب ہوگی اور اس کی ادائیگی کی مقدار کیا ہوگی؟(محسن۔ م۔ ح۔ سلطنت عمان)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جب مکان یا دکان کے کرایہ یا ان کے علاوہ دوسری نقود پر سال بھر کا عرصہ گزر جائے تو اس پر زکوٰۃ واجب ہے۔ بشرطیکہ وہ حد نصاب کو پہنچتا ہو اور کرایہ پر دینے والا شخص سال گزرنے سے پہلے جو کچھ اپنی ضروریات میں خرچ کر ڈالے اس میں زکوٰۃ نہیں ہوگی۔
ایسے اموال میں مسلمانوں کے اجماع کے مطابق شرح زکوٰۃ ربع عشر یعنی چالیسواں حصہ ہے اور سونے کا نصاب ۲۰مثقال ہے اور اس کی مقدار سعودی افرنگی گنی کے حساب سے ۷/۱۱۳ گنی ہے۔ اور چاندی کا نصاب ۱۴۰مثقال ہے اور اس کی مقدار ریالوں کے حساب سے ۵۶ سعودی ریال ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب