سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(94) جن اموال میں زکوٰۃ واجب ہے

  • 7818
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 916

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 کیا اس سونے میں زکوٰۃ واجب ہے، جسے کوئی عورت محض زینت اور استعمال کے لیے رکھتی ہے اور وہ تجارت کے لیے نہ ہو؟ (بشیر۔ ع۔ الخرج)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 عورتوں کے زیور کی زکوٰۃ میں، جبکہ وہ حد نصاب کو پہنچ جائے اور تجارت کے لیے نہ ہو، اہل علم کے درمیان اختلاف ہے… اور صحیح بات یہ ہے کہ جب وہ حد نصاب کو پہنچ جائے تو اس میں زکوٰۃ واجب ہے خواہ یہ محض پہننے اور زینت کے لیے ہو۔

سونے کا نصاب بیس مثقال ہے اور اس کی مقدار ۷/۱۱۳ گنی سعودی ہے۔ اگر زیور اس سے کم مقدار میں ہو تو اس میں زکوٰۃ نہیں۔ الایہ کہ وہ تجارت کے لیے ہو۔ اس صورت میں اس میں زکوٰۃ مطلق ہوگی۔ یعنی جب اس کی قیمت سونے یا چاندی کے نصاب کے برابر ہو جائے۔ چاندی کا نصاب ۱۴۰ مثقال ہے اور درہموں سے اس کی مقدار ۵۶ریال ہے۔ اگر چاندی کا زیور اس سے کم مقدار میں ہو تو اس میں زکوٰۃ نہیں۔ الا یہ کہ وہ تجارت کے لیے ہو۔ اس صورت میں اس میں زکوٰۃ مطلق ہوگی یعنی جب اس کی قیمت سونے یا چاندی کے نصاب کے برابر ہو جائے۔

سونے اور چاندی کے زیور جو پہننے کے لیے تیار کیے گئے ہوں ان میں زکوٰۃ کے واجب ہونے کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال کا عموم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

((مَا مِنْ صَاحِبِ ذَہَبٍ وَّلَا فِضَّة لَا یُؤَدِّی زکاتھا إِلَّا إِذَا کَانَ یَوْمُ الْقِیَامَة صُفِّحَتْ لَہٗ صَفَائِحُ مِنْ نَّارٍ فَیُکْوٰی بِہَا جَنْبُہٗ وَجَبِینُہٗ وَظَہْرُہٗ)) (الحدیث)

’’جس شخص کے پاس بھی سونا اور چاندی ہو اور وہ اس کی زکوٰۃ ادا نہ کرتا ہو تو قیامت کے دن اس کے لیے آگ کی بڑی بڑی تختیاں تیار کی جائیں گی۔ جن سے اس کے پہلو، اس کے ماتھے اور اس کی پشت کو داغا جائے گا۔‘‘

اور عبداللہ بن عمر بن عاس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث یوں ہے:

((ان امراۃ دخلت علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم وفی ید ابنتھا مسکتان من ذھب، فقال: ((اتعطین زکاۃ ھذا)) قالت: لا قال ((ایسرک ان یسورک اللہ بھما یوم القیامۃ سوارین من نار؟)) … فالقتھما، وقالت: ھما للہ ولرسولہ))

’’ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی۔ اس کی بیٹی کے ہاتھ میں سونے کے دو کڑے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: ’’کیا ان کی زکوٰۃ ادا کرتی ہو؟‘‘ وہ کہنے لگے۔ نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’کیا تجھے یہ پسند ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے عوض قیامت کے دن دو آگ کے کنگن پہنائے؟‘‘ … اس عورت نے وہ دونوں کڑے آپ کے آگے ڈال دیئے اور کہا یہ دونوں اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہیں۔‘‘

اس حدیث کو ابوداؤد اور نسائی نے اسناد حسن کے ساتھ روایت کیا۔

اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے کہ انہوں نے سونے کے پازیب پہنے ہوئے تھے۔ وہ کہنے لگیں:

((یا رسُولَ اللّٰہ! اکَنْزٌ ھُوَ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مَا بَلَغَ أنْ یُزَکَّی فَزُکَّیَ فلیسَ بکَنْزٍ))

’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! کیا یہ کنز (خزانہ) کے حکم میں ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر یہ زکوٰۃ کے نصاب کو پہنچ جائیں تو زکوٰۃ ادا کرو۔ پھر یہ کنز کے حکم میں نہ رہیں گے۔‘‘

اس حدیث کو ابوداؤد اور دارقطنی نے روایت کیا اور حاکم نے صحیح کہا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو یہ نہیں کہا کہ زیور میں زکوٰۃ نہیں ہوتی۔

اور جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی جاتی ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’زیور میں زکوٰۃ نہیں‘‘ تو یہ حدیث ضعیف ہے۔ اس کا اصل سے یا احادیث صحیحہ سے معارضہ کرنا جائز نہیں۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ابن بازرحمہ اللہ

جلداول -صفحہ 107

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ