سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(89) کیا میرے لیے لازم ہے کہ نماز کے لیے اسے جگایا کروں ؟

  • 7813
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-23
  • مشاہدات : 766

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرا ایک دوست ہے جو میرے نزدیک ہی رہتا ہے اور مسجد ہم سے بالکل قریب ہے… میرا دوست صبح کی نماز کے لیے مسجد نہیں جاتا۔ رات کو ٹیلی ویژن دیکھنے اور تاش کھیلنے میں وقت گزارتا ہے اور صبح کے ایک دو بجے تک جاگتا رہتا ہے اس لیے صبح کی نماز سورج طلوع ہونے کے بعد ادا کرتا ہے۔ میں اسے اکثر ناراض ہوتا رہتا ہوں۔ اس کا عذر یہ ہوتا ہے کہ وہ اذان نہیں سنتا۔ حالانکہ مسجد ہم سے بالکل قریب ہے اور میں نے اس پر اپنی رغبت بھی ظاہر کی کہ میں اسے صبح کی نماز کے لیے جگایا کروں گا اور عمداً اس کے ہاں گیا اور اسے جگایا بھی، لیکن پھر بھی اسے مسجد میں نہ دیکھا۔ نماز کے بعد پھر میں اس کے پاس آیا اور دیکھا کہ وہ سو رہا ہے۔ میں اس سے خفا ہوا تو وہ فضول بہانے بنانے لگا… کبھی کبھی مجھے وہ یوں کہنے لگتا ہے کیا تم قیامت کے دن اللہ کے ہاں میری طرف سے مسؤل ہوگے کہ میں تمہارا ہمسایہ تھا…

میں ذات والا سے توقع رکھتا ہوں کہ آپ اس معاملہ میں مجھے مستفید فرمائیں گے۔ نیز کیا نماز کے لیے اسے جگانا مجھ پر لازم ہے؟ (خلیل ۔ا۔ خ۔ الریاض)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مسلم کے لیے ایسا جاگنا جائز نہیں جس کے نتیجہ میں صبح کی باجماعات نماز یا اس نماز کا وقت ہی ضائع ہو جاتا ہو، خواہ یہ جاگنا قرآن پڑھنے یا علم کے حصول کی بنا پر ہو اور جب یہ جاگنا ٹیلی ویژن دیکھنے، تاش کھیلنے یا ایسی ہی کسی دوسری وجہ سے ہو تو پھر کیا حال ہوگا؟

آپ کا دوست اس کام کی وجہ سے گنہگار ہے اور اللہ تعالیٰ کی سزا کا مستحق ہے، جیسا کہ وہ حاکموں سے بھی سزا کا مستحق ہے جو اسے اور اس جیسے دوسرے لوگوں کو اس سے باز رکھیں اور تمام اہل علم کے نزدیک عمداً فجر کی نماز کو طلوع آفتاب کے بعد پڑھنا کفر اکبر ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

((بَیْنَ الرَّجُلِ وَبَیْنَ الْکُفْرِ وَالشِّرْکِ تَرْکُ الصَّلَاۃ))

’’نماز چھوڑنے سے آدمی کا کفر وشرک سے فاصلہ ختم ہو جاتا ہے۔‘‘

اس حدیث کو مسلم نے اپنی صحیح میں روایت کیا۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

((الْعَھْدُ الَّذی بینَنا وبینَھمُ الصَّلاۃُ، فَمَنْ تَرَکَھا فَقَدْ کَفَرَ))

ہمارے اور ان لوگوں کے درمیان عہد نماز ہے۔ جس نے اسے چھوڑ دیا۔ اس نے کفر کیا۔‘‘

اس حدیث کو امام احمد اور اہل سنن نے بریدہ بن الحصیب رضی اللہ عنہ سے صحیح اسناد کے ساتھ نکالا ہے۔

اس بارے میں دوسری احادیث وآثار بھی موجود ہیں جو ایسے شخص کے کفر پر دلالت کرتی ہیں جو بلا عذر شرعی، جان بوجھ کر نماز کو اس کے وقت سے موخر کر کے ادا کرتا ہے۔

اور مسلم پر واجب ہے کہ وہ وقت پر نماز ادا کرنے کی محافظت کرے اور جو اسے جگا سکتے ہوں، ان سے مدد طلب کرے، خواہ یہ اس کے گھر والے ہوں یا بھائی ہوں۔ الارم والی گھڑی سے نماز کے وقت جاگنے کے لیے بھی مدد لی جا سکتی ہے۔

اور اے سائل! آپ پر لازم ہے کہ اس سلسلہ میں آپ اپنے دوست کی مدد کریں۔ اسے اکثر نصیحت کرتے رہیں۔ پھر اگر وہ اپنے اس عمل قبیح پر اکڑ جائے تو یہ معاملہ مرکز ہیئت تک پہنچا دیں تاکہ جس سزا کا وہ مستحق ہے وہ پالے… ہم سب مسلمانوں کے لیے اللہ تعالیٰ سے ہدایت اور راہ حق پر استقامت کی دعا کرتے ہیں۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ابن بازرحمہ اللہ

جلداول -صفحہ 98

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ