سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(86) نماز باجماعت کو معمولی سمجھنا

  • 7810
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-08
  • مشاہدات : 815

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کبھی کبھی میں کام میں پھنسا ہوتا ہوں اور تھکا ہوتا ہوں تو دیر سے سوتا ہوں۔ اس لیے صبح کی نماز باجماعت کی ہمت نہیں پاتا۔ گھر پر پڑھ لیتا ہوں۔ کیا میرے لیے یہ جائز ہے؟خ۔ع۔ ن۔ الریاض


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مرد مکلف پر واجب ہے کہ وہ پانچوں نمازیں مسجد میں جا کر اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ ادا کرے۔ اس کام میں سستی کرنا جائز نہیں اور فجر کی یا دوسری نماز باجماعت سے پیچھے رہنا نفاق کی صفات سے ہے۔ جیسا کہ اللہ عزوجل فرماتے ہیں:

﴿اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ یُخٰدِعُوْنَ اللّٰہَ وَ ہُوَ خَادِعُہُمْ وَ اِذَا قَامُوْٓا اِلَی الصَّلٰوۃِ قَامُوْا کُسَالٰی﴾ (النساء: ۱۴۲)

’’منافق اللہ تعالیٰ کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں اور اللہ انہیں اس دھوکا میں پھنسا دیتا ہے اور جب وہ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو سست اور ڈھیلے ڈھالے کھڑے ہوتے ہیں۔‘‘

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

((أَثْقَلَ صَلٰوۃٍ عَلَی الْمُنَافِقِینَ صَلٰوۃُ الْعِشَآئِ وَصَلٰوۃُ الْفَجْرِ وَلَوْ یَعْلَمُونَ مَا فِیہِمَا لَأَتَوْہُمَا وَلَوْ حَبْوًا))

’’منافقوں پر بھاری نماز عشاء اور فجر کی نماز ہے اور اگر وہ جانتے کہ ان دونوں میں کیا (گناہ یا ثواب) ہے تو وہ ضرور مسجد کو آتے خواہ سرین کے بل گھسٹ کر آتے۔‘‘

اس حدیث کی صحت پر شیخین کا اتفاق ہے۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

((مَنْ سمعَ النِّدائَ فلمْ یاتِ؛ فلا صلاۃَ لہ اِلاَّ مِنْ عُذر))

’’جس نے اذان کی آواز سنی، پھر مسجد نہ آیا، اس کی نماز ادا نہیں ہوئی سوائے اس کے کہ کوئی شرعی عذر ہو۔‘‘

اس حدیث کو ابن ماجہ، دارقطنی اور حاکم نے صحیح اسناد کے ساتھ نکالا۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک اندھا آیا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کوئی مسجد تک لانے والا نہیں۔ کیا میرے لیے رخصت ہے کہ میں اپنے گھر میں نماز پڑھ لیا کروں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

((ہل تسمعُ النِّداء بالصَّلاۃ؟ قالَ: نعَمْ قالَ: فأجِب))

’’کیا تم نماز کی اذان سنتے ہو؟ وہ کہنے لگا: ’’ہاں‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تو پھر مسجد میں آؤ۔‘‘

اس حدیث کو مسلم نے اپنی صحیح میں نکالا۔ تو جب اندھے کے لیے جسے مسجد تک لے جانے والا کوئی نہ تھا، نماز باجماعت کے ترک کا عذر قبول نہ ہوا تو دوسروں سے کیسے ہو سکتا ہے؟ لہٰذا اے سائل! آپ پر واجب ہے کہ اللہ عزوجل سے ڈرو اور فجر اور دوسری باجماعت نمازوں پر محافظت کرو اور رات کو جلدی سوجایا کرو تاکہ تم فجر کی نماز کے لیے اٹھ سکو۔ آپ کے لیے گھر میں نماز ادا کرنا صرف اس صورت میں جائز ہے جبکہ کوئی شرعی عذر موجود ہو۔ جیسے مرض یا خوف۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو حق تھامنے اور اس پر جمے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ابن بازرحمہ اللہ

جلداول -صفحہ 95

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ