سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(82) ایسے عوامی باغوں میں نماز ادا کرنے کا کیا حکم ہے جنہیں بدبودار پانی سے

  • 7806
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 882

سوال

(82) ایسے عوامی باغوں میں نماز ادا کرنے کا کیا حکم ہے جنہیں بدبودار پانی سے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عوامی باغوں میں نماز کا کیا حکم ہے۔ جن کے متعلق یہ معلوم ہے کہ انہیں ایسے پانی سے سیراب کیا جاتا ہے جس میں بدبوپیدا ہو چکی ہوتی ہے۔ میں یہ سمجھتا رہا کہ یہ پانی صاف کیا ہوا ہوتا ہے اور جاری چشمہ وغیرہ سے آتا ہے یا ایسے کنوؤں سے جن تک گندے کنوؤں کا پانی لایا جتا ہے۔ کیا ایسے باغوں میں نماز ادا کرنے سے لوگوں کو محکمہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی طرف سے روکا جائے۔ میں توقع رکھتا ہوں کہ آپ اس مسئلہ میں درست بات کی وضاحت فرمائیں گے۔  سعد۔ ع۔ ا۔ الریاض


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جب پانی میں بدبو پیدا ہو جائے تو ایسے باغ میں نماز درست نہیں کیونکہ نماز کی صحت کی شرائط میں سے ایک شرط اس جگہ کی طہارت بھی ہے جہاں مسلم نماز ادا کرتا ہے اور اگر اس پر کوئی پاک موتی چیز بطور پردہ ہو جائے۔ تو نماز درست ہوگی۔

اور مسلم کے لیے جائز نہیں کہ وہ ان باغوں میں نماز ادا کرے۔

بلکہ اس پر واجب یہ ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ اللہ کے گھروں یعنی مساجد میں جا کر نماز ادا کرے۔ جن کے متعلق اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا ہے:

﴿فِیْ بُیُوتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ وَیُذْکَرَ فِیْہَا اسْمُہُ یُسَبِّحُ لَہٗ فِیْہَا بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِo رِجَالٌ لَا تُلْہِیہِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَاِِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَاِِیتَائِ الزَّکَٰوۃِ یَخَافُوْنَ یَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِیْہِ الْقُلُوْبُ وَالْاَبْصَارُo لِیَجْزِیَہُمْ اللّٰہُ اَحْسَنَ مَا عَمِلُوْا وَیَزِیْدَہُمْ مِّنْ فَضْلِہٖ وَاللّٰہُ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآئُ بِغَیْرِ حِسَابٍo﴾ (النور: ۳۶۔۳۸)

’’ان گھروں میں جن کے متعلق اللہ نے حکم دیا ہے کہ بلند (تعمیر) کیے جائیں اور وہاں اللہ کے نام کا ذکر کیا جائے۔ ان میں صبح وشام اللہ کی تسبیح کرتے رہیں۔ یہ لوگ ہیں جنہیں اللہ کے ذکر، نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے سے نہ تجارت غافل کرتی ہے اور نہ لین دین۔ وہ اس دن سے خائف رہتے ہیں جب دل (خوف اور گھبراہٹ سے) الٹ جائیں گے اور آنکھیں اوپر چڑھ جائیں گی۔ تاکہ اللہ انہیں ان کے عملوں کا بہت اچھا بدلہ دے اور اپنے فضل سے زیادہ بھی عطا کرے اور اللہ جسے چاہتا ہے بلا حساب رزق دیتا ہے۔‘‘

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

((مَنْ سمعَ النِّدائَ فلمْ یاتِ؛ فلا صلاۃَ لہ اِلاَّ مِنْ عُذر))

’’جس نے اذان کی آواز سنی، پھر مسجد نہ آیا، اس کی نماز ادا نہیں ہوئی سوائے اس کے کہ کوئی شرعی عذرہو۔‘‘

اس حدیث کو ابن ماجہ، دارقطنی، ابن حبان اور حاکم نے روایت کیا اور اس کی اسناد مسلم کی شرط پر ہیں۔

ایک اندھے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول! مجھے کوئی شخص مسجد تک لانے والا نہیں۔ کیا میرے لیے اپنے گھر میں نماز ادا کر لینے کی رخصت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا:

((ہل تسمعُ النِّداء بالصَّلاۃ؟ قالَ: نعَمْ قالَ: فأجِب))

’’کیا نماز کی اذان سنتے ہو؟ اس نے کہا ’’ہاں‘‘ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم)نے فرمایا تو پھر مسجد میں آؤ۔‘‘

اسے مسلم نے روایت کیا اور اس معنی میں احادیث بہت ہیں۔

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے محکمہ پر واجب ہے کہ وہ ایسے باغوں میں لوگوں کو نماز ادا کرنے سے روکے اور اللہ عزوجل کے اس قول کے مطابق لوگوں کو مساجد میں نماز ادا کرنے کا حکم دیں۔

﴿وَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی﴾ (المائدۃ: ۲)

’’نیکی کے کاموں اور تقویٰ پر ایک دوسرے کی مدد کرو۔‘‘

نیز فرمایا:

﴿وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ﴾ (التوبۃ: ۷۱)

’’مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے دوست ہیں جو بھلے کاموں کا حکم دیتے اور برے کاموں سے روکتے ہیں۔‘‘

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

((مَنْ رَّاٰی مِنْکُمْ مُّنْکَرًا فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہٖ فَإِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہٖ فَإِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ وَذٰلِکَ أَضْعَفُ الْاِیمَانِ))

’’تم میں سے اگر کوئی بری بات دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے بدل دے اور اگر ایسا نہیں کر سکتا تو زبان سے بدلنے کی کوشش کرے اور اگر یہ بھی نہیں کر سکتا تو دل سے (برا جانے) اور یہ ایمان کا کمزور تر درجہ ہے۔‘‘ (اسے مسلم نے اپنی صحیح میں روایت کیا)۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ابن بازرحمہ اللہ

جلداول -صفحہ 91

محدث فتویٰ

تبصرے