السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیانمازی کے لیے اپنی فرض نماز میں دعا کرنا جائز ہے؟ مثلا ارکان بجالانے کے بعد جیسے سجدہ میں سبحانَ اللہ کے بعد الّھمَّ اغْفِرْلی وارْحَمْنِی، وغیْرُ ذلک۔ فہد۔ ع۔ ع۔ الریاض
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مومن کے لیے مشروع ہے کہ وہ اپنی نماز میں دعا کے مقامات پر دعا کرے، خواہ نماز فرض ہویا نفل ہو۔ نماز میں دعا کے مقامات یہ ہیں ۔ سجدہ میں اور دوسجد وں کے درمیان جلسہ میں اور نماز کے آخری تشہد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر دور پڑھنے کے بعد اور سلام پھیرنے سے پہلے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثا بت ہے کے آپ دنوں سجدوں کے درمیان جسلہ مغفرت طلب ک رتے تھے اور یہ بھی ثابت ہے کہ آپ دونوں سجدوں کی درمیان یہ دعا پڑھا کرتے تھے’’ اے اللہ مجھے بخش دے، مجھ پر رحم فرما، مجھے راہ راست پر قائم رکھ ، میری اصلاح فرمای، مجھے رز ق عطا فرما اور مجھے میں رکھ ، نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((فَأَمَّا الرُّکُوعُ فَعَظِّمُوْا فِیہِ الرَّبَّ عَزَّ وَجَلَّ وَأَمَّا السُّجُودُ فَاجْتَہِدُوا فِی الدُّعَآئِ فَقَمِنٌ أَنْ یُّسْتَجَاب))
’’ رکوع میں اپنے پرودگار کی عظمت بیان کیا کرو اور سجدہ میں بہت دعا کیا کرو۔ پس لائق ہے کہ تمہاری دعا قبول ہوجاے‘‘
اس حدیث کو مسلم نے اپنی صحیح میں نکالا۔ نیز مسلم ہی نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے تخریک کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((أقربُ مایکونُ العبدُ من ربَّہ وهو ساجدٌ ، فأکْثِرُوا الدُّعاء))
’’ بندہ اپنے پرودگار کے سب سے زیادہ نزدیک اس وقت ہوتاہے جب وہ سجدہ میں ہو لہٰذا سجدہ میں دعا زیادہ کیا کرو‘‘
اور صحیحین میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تشہد سکھلایا تو فرمایا: ’ پھر جو سوال تم اللہ سے چاہو کر و‘‘ اور اس معنی میں اور بھ بہت سی احادیث ہیں ، جو ان مقامات میں دعا کی مشروعیت پردلالت کر تی ہیں ، جو دعا بھی مسلمان پسند کرتا ہو، خواہ یہ دعا آخرت سے متعلق ہو یا نیوی مصالح سے متعلق ہومگر شرط یہ ہے کہ یہ دعا کسی گناہ کے کام اور قطع رحمی سے متعلق نہ ہوا ور افضل یہ ہے کہ اکثر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ماثور دعائیں ہی مانگے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب