السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سورۂ فاتحہ کے بعد امام کے اتنی دیر ٹھہر جانے کے متعلق کیا حکم ہے جتنی دیر میں مقتدی سورہ فاتحہ پڑھ سکے؟ اور اگر اما م اس وقفہ کے لیے نہ ٹھہرے تو مقتدی سورۂ فاتحہ کب پڑھے؟ عبدالرزاق۔س۔ القصیم
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جہری نمازوں میں امام کے سکوت کی مشروعیت پر کوئی صحیح صریح دلیل موجود نہیں ہے، جس میں مقتدی فاتحہ پڑھ سکے۔ البتہ مقتدی کے لیے یہ جائز ہے ہ وہ امام کے سکتات کی حالت میں پڑھ لے اگر وہ آیت پڑھنے کے بعد ساکت ہوتا ہو اور اگر یہ بات میسر نہ آئے تو دل میں پڑھتا جائے اگر چہ امام وہی کچھ پڑھ رہا ہو پھر اس کے بعد امام کے پڑھنے کے لیے چپ ہوجائے۔ یہ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے درج ذیل قول میں عموم پایا جاتا ہے:
((لاصلاة لِمنْ لمْ یقرأْ بفاتحة الکتابِ))
’’ جس نے فاتحہ نہیں پڑھی اس کی نماز نہیں ہوتی‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے ۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((لعلَّکُم تَقْرئُ ون خلْفَ إمامِکم قالوُا: نعَمْ قالَ : لاتفْعلُوا إلاَّبفاتحة الکتاب فإنَّه الاصلاۃَ لمنْ لمْ یقرأْبھا۔))
شاید تم اپنے امام کے پیچھے پڑھتے رہتے ہو؟ صحا بہ کہنے لگے‘‘ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ ایسا مت کرو۔ البتہ فاتحہ الکتاب پڑھ لیا کرو کیونکہ جس نے سورۂ فاتحہ نہ پڑھی اس کی نماز نہیں ہوتی۔‘‘
اس حدیث کو احمد، ابوداؤد اور ابن حبان نے اسناد حسن کے ساتھ روایت کیا ہے ۔ اور یہی دو حدیثیں ہیں جو اللہ عزوجل کے درج ذیل قول کو خاص کرتی ہیں ۔
﴿وَ اِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَ اَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ﴾
’’ اورجب قرآن پڑھا جائے تو اسے غور سے سنو او رخاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے ۔‘‘ (الاعراف: ۲۰۴)
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کو بھی:
((إنَّما جُعِلَ الامامُ لِیُؤتَمَّ بہ فلاَ تخْتلِفُوا علیہ، فإذا کبَّر فکبَّروا وإذآ قرَأَ فأنْصِتُوا۔))
’’ امام تو بنایا ہی اس لیے جاتا ہے کہ اس کی اقتدار کی جائے لہٰذا اس کے خلاف کچھ نہ کرو۔ جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ پڑھے تو تم خاموش رہو۔‘‘
مسلم نے اس حدیث کو اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب