السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
یہ تو معلوم ہے کہ مساجد میں مردے دفن کرنا جائز نہیں اور جس مسجد میں قبر ہو ، وہاں نماز جائز نہیں ۔پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعض صحابہ کی قبروں کو مسجد نبوی میں داخل کرنے کی کیا حکمت ہے؟!
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’ اللہ تعلای یہود و نصاری پر لعنت کرے انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجدیں بنالیا‘‘ اس حدیث کی صحت پر شیخین کا اتفاق ہے نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی ثابت ہے جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ام سلمہؓ اور ام حبیہ دونوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک کنیسہ کا ذکر کیا جو انہوں نے سرزمین حبشہ دیکھا تھا اور اس کنیسہ میں تصاویر تھیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((أُولئکَ إِذا مَاتَ فِیھم الرّجُلُ الصّالحُ بَنَوا علی قبرہ مسجداً، واصوَّرُوا فیہ تِلْک الصُّوَر، أُوْلئِک: شِرَ ارُ الخلْقِ عِنّداللَّہ)) (متَّفقٌ علیہ)
’’ ان لوگوں میں جب کوئی نیک آدمی فوت ہو جاتا تووہ اس کی قبر پر مسجد تعمیر کر لیتے او راس بزرگوں کی تصویریں بنادیتے۔ یہ لوگ اللہ کے ہاں بدترین مخلوق ہیں‘‘
اور مسلم نے بھی اپنی صحیح میں جندب بن عبداللہ بجلی سے روایت کیا ہے، وہ کہتے ہے کہ میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: بیشک اللہ نے مجھے خلیل بنایا ہے جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام کو دوست بنایا اور اگر میں اپنی امت میں سے کسی کو دوست بنا تا توابوبکر کو بناتا۔ خوب سن لوکہ تم سے پہلے لوگوں نے اپنے انبیاء اور بزرگوں کی قبروں کو مساجد بنالیا۔ خوب سن لو۔تم قبروں کو مسجد یں نہ بنانا۔ میں تمہیں اس کام سے منع کرتا ہوں‘‘
مسلم میں جابر رضی اللہ عنہ یہ بھی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کو پختہ بنانے، ان پر بیٹھنے اور ان پر تعمیر کرنے سے منع فرمایا ہے۔ یہ احادیت صحیحہ اور دوسری جو اس معنی میں اوارد ہیں سب کی سب قبروں پر مسجدیں بنانے اور ان پر گنبد بنانے اور انہیں پختہ کرنے کی حرمت پر دلالت کرتی ہیں کیونکہ یہ باتیں شرک اور اللہ کو چھوڑ کر قبر کے باسیوں کی عبادت کا سبب بنتی ہیں جیسا کہ پہلے بھی ہوتا رہا اور اب بھی ہو راہا ہے لہٰذ مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ جہاں کہیں بھی ہوں ایسی باتوں سے بچیں ، جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے ورنہ وہ لوگوں کی اکثرت کے فعل سے دھوکہ میں پڑجائیں گے ۔ کیونکہ حق مومن کی گم شدہ چیزہے جہاں اسے پاتا ہے اسے قبول کر لیتا ے اور حق کتاب و سنت کی دلیل سے ہی پہنچاتا جاسکتا ہے۔ لوگوں کی آراء واعمال سے نہیں پہنچانا جاسکتا اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے دونوں ساتھی مسجد میں دفن نہیں ہوئے تھے وہ توحضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے گھر میں دفن کئے گئے تھے۔ لیکن جب ولید بن عبدالملک کے عہد حکومت میں مسجد نبوی کو پہلی صدی کے آخر میں وسیع کیا گیا تو حجرہ کو مسجد میں داخل کردیا دونوں ساتھیوں کو مسجد کی زمین کی طرف منتقل نہیں کیا گیا۔ بلکہ حجرہ ہی کو مسجد کی توسیع کی خاطر مسجد میں داخل کر دیا گیا۔ لہٰذا یہ بات کسی کے لیے قبروں پر تعمیر یا ان پر مسجد یں بنانے یا مسجد میں دفن کرنیکے جو از پر حجت نہیں بن سکتی۔ جیسا کہ ابھی میں نے ان احادیث صحیحہ کا ذکر کیا ہے جن میں ان باتوں کی ممانعت ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثا بت شدہ سنت کے خلاف ولید کا عمل حجت نہیں بن سکتا… اور اللہ ہی توفیق عطا کرنے والا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب