السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا سنن مؤکدہ چھوڑنے والا گناہ گا ر ہے۔؟ الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته! الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!سنن مؤکدہ چونکہ فرض اور واجب کا درجہ نہیں رکھتی ہیں، لہذا فقہاء کے نزدیک ان کو ادا کرنے پر ثواب ہوتا ہے ،جبکہ عدم ادائیگی پر گناہ نہیں ہوتا۔ لیکن ہم میں سے کون ایسا ہے جو ثواب کا محتاج نہیں ہے، ان سنن سے فرائض میں ہونے والی کوتاہی اور نقص کو پورا کیا جائے گا۔ لہذا کوشش کرنی چاہئے کہ سنن کو ادا کرنے کا بھی اہتمام کیا جائے۔ نبی کریم سنن مؤکدہ کو پابندی کے ساتھ ادا کیا کرتے تھے۔ سیدہ عائشہ فرماتی ہیں۔ «كان رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يدع أربعا قبل الظهر» صحيح البخاري الجمعة (1182)نبی کریمﷺ ظہر سے پہلے چار رکعات سنت کبھی نہیں چھوڑتے تھے۔ اس حدیث مبارکہ میں وارد لفظ (کان)استمرار ومداومت پر دلا لت کرتا ہے۔ سیدہ ام حبیبہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے نبی کریمﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: «مَنْ صَلَّى اثْنَتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً فِي يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ بُنِيَ لَهُ بِهِنَّ بَيْتٌ فِي الجَنَّةِ»( أخرجه مسلم (1/ 329) في «صلاة المسافرين وقصرها» رقم (728)جس نے ایک دن اور رات میں بارہ رکعات سنن ادا کیں اس کے لئے جنت میں گھر بنا دیا جاتا ہے۔ بعض اہل فرماتے ہیں کہ اگر کوئی آدمی مسلسل ان سنن کو چھوڑ تا ہے تو دین میں تساہل کی وجہ سے اس کی شہادت قبول نہیں کی جائے گی۔ امام نووی فرماتے ہیں: من ترك السنن الراتبة وتسبيحات الركوع والسجود أحياناً لا ترد شهادته, ومن اعتاد تركها ردت شهادته؛ لتهاونه بالدين هذا بقلة مبالاته بالمهمات(روضة الطالبين11/233)امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں: من أصر على تركها ـ أي: السنن الرواتب ـ دل ذلك على قلة دينه, ورُدّتْ شهادته في مذهب أحمد والشافعي وغيرهما(مجموع الفتاوى23/127, 253) ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصوابفتاوی بن باز رحمہ اللہجلداول |