سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(03) گھر کی زینت کے لیے رکھے ہوئے مجسموں کا کیا حکم ہے

  • 7723
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 1214

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 ایسے مجسموں کا کیا حکم ہے جو گھروں میں محض زینت کے لیے رکھے جاتے ہے جبکہ ان کی عبادت نہیں ہوتی؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

گھروں میں دفتروں میں مجالس میں تصاویر یا حنوط شدہ حیوانات آویزں کرنا جائز نہیں۔ لٹکانے حرمت پر دلالت کرتی ہیں۔ اس لیے کہ یہ چیزیں اللہ سے شرک کا ذریعہ ہیں اور اس لیے بھی اللہ کی مخلوق کی مشابہت اور اللہ کے دشمنوں کی نقالی ہے اور حنوط کردہ جانوروں کو آویز اں کرنے میں مال کے ضیاع کے علاوہ اللہ کی دشمنوں کی نقالی بھی ہے ۔ جس سے جانوروں کی تصویر کشی کا دروازہ کھل جاتا ہے جبکہ شریعت اسلامیہ ایسے ذرائع کو مکمل طور پر بند طور کر دیتی ہے جو شرک یا گناہ کے کاموں کی طرف لے جاتے ہیں۔ نوح علیہ السلام کی قوم میں ان کے زمانہ کے پانچ بزرگوں کی تصویر کشی کی وجہ سے ہی شرک رائج ہواتھا ان لوگوں نے ان کے مجسمے اپنی مجلسوں میں نصب کر رکھے تھے۔جیسا کہ اللہ سبحانہ نے اپنی کتاب مبین میں اس کی یوں وضاحت فرمائی ہے کہ:

﴿وَقَالُوْا لَا تَذَرُنَّ آلِہَتَکُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّلَا سُوَاعًا وَلَا یَغُوثَ وَیَعُوقَ وَنَسْرًا o وَقَدْ اَضَلُّوْا کَثِیْرًا ﴾

’’ اور کہنے لگے کہ اپنے معبودوں کو ہر گز نہ چھورنا اور ود ، سواع یغوث، یعوق اور نسر کو کبھی ترک نہ کرنا اور انہوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کر دیا ہے‘‘                 (نوح: ۲۳)             

گویا ایسے لوگوں کیان ناپسندیدہ کاموں سے بچنا ضروری ہے جس کی وجہ سے وہ شرک میں جا پڑے تھے۔ صحیح حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے فرمایا:

((لا تَدعْ صورۃَ إلَّا طَمسْتھا، ولا قبراً مشرِفًا إلا سوَّ یته))

’’ جو بھی تصویر یا مجسمہ دیکھو اسے مٹادو اور جو قبر اونچی دیکھو اسے برابر کردو۔‘‘

مسلم نے اپنی صحیح میں اس حدیث کی تخریج کی ہے نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

((أَشدُّ النَّاس عذاباً یومَ القیامة المصوِّرون))

’’ قیامت کے دن سب سے سخت عذاب مصوروں کو ہوگا‘‘

اس حدیث صحت پر اتفاق ہے اور اس بارے میں اور بھی بہت سی احادیث ہیں… اور توفیق عطا کرنے والا تو اللہ تعالیٰ ہی ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ابن بازرحمہ اللہ

 

جلداول -صفحہ 30

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ