سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(357) قبروں پر گنبد بنانے کا حکم

  • 7722
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 4464

سوال

(357) قبروں پر گنبد بنانے کا حکم
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا نبی کریم ﷺکی قبر پر موجود گنبد کا وجود شرعی اعتبار سے درست ہے۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شرعی طور پر قبروں پر عمارت ،قبے اور گنبد وغیرہ بنانا حرام ممنوع اور شریعت کے خلاف کام ہے،ان کو منہدم کرنا واجب اور ضروری ہے،کیونکہ نبی کریم نے قبروں کو بلند کرنے یا ان پر قبے وغیرہ بنانے سے منع فرمایا ہے۔

سیدنا ابو الھیاج اسدی ﷫فرماتے ہیں کہ مجھے سیدنا علی﷜نے کہا:

«ألا أبعثك على ما بعثني عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ ألا أدع قبراً مشرفاً إلا سويته، ولا تمثالاً إلا طمسته». (أخرجه مسلم)

کیا میں تجھے اس کام پر روانہ نہ کروں ،جس پر نبی کریم ﷺ نے مجھے بھیجا تھا،کہ میں ہر اٹھی ہوئی قبر کو برابر کر دوں اور ہر تصویر کو مٹا دوں۔

امام شوکانی ﷫اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں۔

من رفع القبور الداخل تحت الحديث دخُولاً أولياء القبب والمشاهد المعمورة على القبور

اس حدیث کے مدلول میں قبروں پر بنائے گئے قبے اور مزارات بھی داخل ہیں۔

نبی کریم ﷺکی قبر مبارک پر ساتویں صدی ہجری تک کوئی قبہ یا گنبد موجود نہیں تھا،یہ عمل نہ تو نبی کریم کی وصیت ہے،نہ صحابہ نے اس پر عمل کیا اور نہ ہی ساتویں صدی تک کسی نے اس کی طرف کوئی توجہ کی۔یہ گنبد سب سے پہلے سلطان محمد بن قلاوون صالحی نے678 ہجری میں سنت نبوی سے جہالت،اورنصاری کی تقلید میں بنوایا،اور اس کے بعد یہ مسلسل بنتا چلاآیا،لیکن امراء کا یہ عمل منکر اور شریعت کے خلاف تھا ،جس کی ممانعت صریح احادیث میں موجود ہے۔سیدنا جابر﷜ فرماتے ہیں:

«نهى النبي صلى الله عليه وسلم أن يجصَّص القبر ، وأن يقعد عليه ، وأن يبنى عليه » رواهما مسلم

نبی کریم ﷺنے قبروں کو پختہ کرنے،ان پر بیٹھنے ،اور ان پر عمارت تعمیر کرنے سے منع فرمایا ہے۔

اس کا اب آٹھ سو سالوں سے بنتے چلےآنا اور سعودی کا اس کو باقی رکھنا اس کے جواز کی دلیل نہیں ہے،میرے علم کے مطابق ایک ایسا وقت بھی آیا کہ سعودی حکومت اسے گرانے یا اس کے رنگ کو بدلنے کا ارادہ رکھتی تھی ،لیکن فتنے کے ڈر سے ایسا نہ کر سکی۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاوی بن باز رحمہ اللہ

جلداول

تبصرے