سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(356) رجوع کا طریقہ

  • 7721
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1587

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں نے اپنی بیوی کو ایک دفعہ غصے کی حالت میں ایک بار طلاق کا لفظ بول دیا۔ بعد ازاں کچھ دنوں بعد میں نےSMS کےذریعہ رجوع کی خواہش کا اظہار کیا مگر وہ ناراض رہی اور کوئی جواب نہیں دیا۔ اب اس بات کو سال سے زائد عرصہ گزر گیا ہے اور ہم دوبارہ نہ ہی ملے اور نہ بات ہوئی۔ مہربانی کر کے بتائیں اس وقت ہم دوبارہ اکٹھے رہنا چاہیں تو کیسے ممکن ہے۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صورت مسؤلہ میں اگر آپ نے عدت کی مدت تین حیض گزرنے سے پہلے رجوع کے لئے رجوع کی نیت سے میسج کیا تھا، تو آپ کا رجوع ہو چکا ہے ،اور آپ اپنی بیوی کے ساتھ بغیر نکاح جدید کے رہ سکتے ہیں۔رجوع کے لئے عورت کی رضا اور علم ہونا ضروری نہیں ہے،یہ مرد کا حق ہے اور اس میں عورت کو کوئی اختیار حاصل نہیں ہے۔

امام ابن قدامہ فرماتے ہیں:

وجملته أن الرجعة لا تفتقر إلى ولي ولا صداق ولا رضي المرأة ولا علمها بإجماع أهل العلم لما ذكرنا من أن الرجعية في أحكام الزوجات والرجعة إمساك لها واستبقاء لنكاحها

خلاصہ کلام یہ ہے کہ تمام اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ رجوع ولی،حق مہر،عورت کی رضا اور اور اس کے علم کا محتاج نہیں ہے،کیونکہ رجوع کا معاملہ در اصل عورت کے نکاح کو باقی رکھنے اور اسے اپنے پاس روک لینے پر مشتمل ہے۔

امام کاسانی فرماتے ہیں۔

ولا يشترط فيها رضا المرأة، لأنها من شرائط ابتداء العقد لا من شرط البقاء, وكذا إعلامها بالرجعة ليس بشرط حتى لو لم يعلمها بالرجعة جازت، لأن الرجعة حقه على الخلوص لكونه تصرفا في ملكه بالاستيفاء والاستدامة، فلا يشترط فيه إعلام الغير كالإجازة في الخيار، لكنه مندوب إليه ومستحب،

اسی طرح رجوع میں عورت کی رضا شرط نہیں ہے،کیونکہ یہ شرط ابتداء عقد میں ہوتی ہے ،اس کو باقی رکھنے کے لئے نہیں۔اسی طرح عورت کو رجوع کی خبر دینا بھی شرط نہیں ہے،اگر اس کو علم نہ بھی ہو تب بھی رجوع جائز ہے۔ کیونکہ رجوع مرد کا حق ہے ،اس میں اجازہ فی الخیار کی مانند کسی کو بتانے کی شرط لگانا درست نہیں ہے۔ لیکن بتا دینا مستحب عمل ہے۔

اور اگر یہ میسج عدت گزرنے کے بعد کیا تھا تو وہ غیر معتبر ہے ،اب آپ کو اکٹھا رہنے کے لئےنکاح جدید کرنا پڑے گا۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاوی بن باز رحمہ اللہ

جلداول

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ