سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(348) سنت رسول ﷺکے ساتھ عمل واجب اوراس کا انکارکفر ہے

  • 7713
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-02
  • مشاہدات : 3180

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سنت رسول ﷺکے ساتھ عمل واجب اوراس کا انکارکفر ہے


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سنت رسول ﷺکے ساتھ عمل واجب اوراس کا انکارکفر ہے

الحمدلله رب العالمين’والعاقبة للمتقين’ والصلوة والسلام علي عبده ورسوله نبينا محمد المرسل رحمة للعالمين’وحجة علي العباد اجمعين’ وعلي اآله واصحابه الذين حملوا كتاب ربهم سبحانه وسنة نبيهم صلي الله علي وسلم الي من بعدهم’بغاية الامانة والاتقان’والحفظ التام للمعاني والالفاظ رضي الله عنهم وارضاهم وجعلنا من اتباعهم باحسان – امابعد:

قدیم و جدید،ہردورکے علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ اثبات احکام اورحلال وحرام کے بیان کے سلسلہ میں شریعت کے جومعتبر اصول ہیں،ان میں سرفہرست توکتاب اللہ ہے کہ اس پر جھوٹ کا دخل نہ آگے سے ہوسکتا ہے اورنہ پیچھے سے،پھر رسول اللہ ﷺکی سنت ہے کہ آپؐ خواہش نفس سےمنہ سے بات نہیں نکالتے بلکہ آپؐ جو بھی فرماتے ہیں وہ تواس وحی الہی کی روشنی میں ہوتا ہے جوآپؐ پر نازل ہوئی،اس پر علماء امت کا اجماع ہے اوران کے علاوہ دیگر اصولوں کے بارے میں جن میں سے سب سے اہم قیاس ہے ،علماء کا اختلاف ہے ۔قیاس کے بارے میں جمہوراہل علم کا مذہب یہ ہے کہ یہ حجت ہے بشرطیکہ معتبر شروط کو پوراکرتا ہو۔ان اصولوں کی حجیت کے بارے میں دلائل اس قدرہیں کہ انہیں شمار نہیں کیا جاسکتا اوراس قدرمشہورہیں کہ ان کے ذکر کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ان میں سے اصل اول ،کتاب اللہ ہے اوراس کے بارے میں خود قرآن مجید ہی کے بہت سے مقامات پر یہ بیان کیاگیا ہے یہ اس کتاب کی اتباع کرنا ،اسے مضبوطی سے تھام لینا اوراس کے حدود کی پابندی کرنا واجب ہے،چنانچہ ارشادباری تعالی ہے:

﴿اتَّبِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّ‌بِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ۗ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُ‌ونَ﴾ (الاعراف۷/۳)

‘‘ (لوگو) جو (کتاب) تمہارے پروردگارکے ہاں سے تمہاری طرف نازل ہوئی ہےاس کی پیروی کرواوراس کے سوا اور رفیقوں کی پیروی نہ کرو (اور) تم کم ہی نصیحت قبول کرتے ہو۔’’

اورفرمایا:

﴿وَهَـٰذَا كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ مُبَارَ‌كٌ فَاتَّبِعُوهُ وَاتَّقُوا لَعَلَّكُمْ تُرْ‌حَمُونَ﴾ (الانعام۶/۱۵۵)

‘‘اوریہ برکت والی کتاب بھی ہم نے ہی اتاری ہے،تواس کی پیروی کرواور (اللہ سے) ڈروتاکہ تم پر مہربانی کی جائے۔’’

نیزفرمایا:

﴿قَدْ جَاءَكُم مِّنَ اللَّـهِ نُورٌ‌ وَكِتَابٌ مُّبِينٌ ﴿١٥﴾ يَهْدِي بِهِ اللَّـهُ مَنِ اتَّبَعَ رِ‌ضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلَامِ وَيُخْرِ‌جُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ‌ بِإِذْنِهِ وَيَهْدِيهِمْ إِلَىٰ صِرَ‌اطٍ مُّسْتَقِيمٍ﴾ (المائدہ۵/۱۵۔۱۶)

‘‘بے شک تمہار ے پاس اللہ کی طرف سے روشنی اورواضح کتاب آچکی ہے جس سے اللہ اپنی رضا پر چلنے والوں کو نجات کے راستے دکھاتا ہے اوراپنے حکم سے اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے جاتا ہے اوران کوسیدھے رستے پر چلاتا ہے۔’’

مزید فرمایا:

﴿إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا بِالذِّكْرِ‌ لَمَّا جَاءَهُمْ ۖ وَإِنَّهُ لَكِتَابٌ عَزِيزٌ ﴿٤١﴾ لَّا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ ۖ تَنزِيلٌ مِّنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ﴾ (فصلت٤١/۴۱۔۴۲)

‘‘تحقیق جن لوگوں نے نصیحت نہ مانی جب وہ ان کے پاس آئی اوریہ توایک عالی رتبہ کتاب ہے اس پر جھوٹ کادخل نہ آگے سے ہوسکتا ہے نہ پیچھے سے (اور) دانا (اور) خوبیوں والے (اللہ ) کی اتاری ہوئی ہے۔’’

اورفرمایا:

﴿وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَـٰذَا الْقُرْ‌آنُ لِأُنذِرَ‌كُم بِهِ وَمَن بَلَغَ﴾ (الانعام۶/۱۹)  

‘‘اور یہ قرآن مجید مجھ پر اس لئے اتارا گیا ہے کہ میں اس کے ذریعے سے تم کو اور جس جس شخص تک یہ قرآن پہنچے ان سب کو ڈراؤں۔’’

نیزفرمایا:

﴿هَـٰذَا بَلَاغٌ لِّلنَّاسِ وَلِيُنذَرُ‌وا بِهِ﴾ (ابراھیم۱۴/۵۲)

‘‘یہ (قرآن ) لوگوں کے نام (اللہ کا پیغام) ہےتاکہ ان کو اس سے ڈرایا جائے۔’’

اس مضمون کی اوربھی بہت سی آیات ہیں۔تحقیق رسول اللہ ﷺکی بہت سی صحیح احادیث بھی ہیں جن میں قرآن مجیدکے ساتھ وابستگی اختیار کرنے اوراسے مضبوطی سے تھامنے کا حکم دیا گیا ہے ،یہ احادیث مبارکہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ جوشخص قرآن مجید مضبوطی سے تھام لے وہ ہدایت پر ہے اورجو اسے ترک کردے وہ صریحا ضلالت وگمراہی میں مبتلاہے،چنانچہ نبی کریمﷺنے اپنے حجۃ الوداع کے خطبہ میں ارشادفرمایاتھاکہ‘‘میں تم میں وہ چیز چھوڑ کرجارہا ہوں کہ اگراسےمضبوطی سے تھام لوگےتوکبھی گمراہ نہ ہوگے اوروہ ہے اللہ کی کتاب!’’یہ حدیث مسلم میں ہے اور

‘‘صحیح مسلم’’ہی کی ایک دوسری حدیث میں ہے،جو حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سےمروی ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایا‘‘تحقیق میں تم میں دوگراں مایہ چیزیں چھوڑ رہا ہوں،ان میں سے ایک تواللہ کی کتاب ہے جو سراپاہدایت ونورہے،اللہ کی کتاب کولے لواوراسے مضبوطی سے تھام لو’’آپؐ نے اللہ تعالی کی کتاب کو مضبوطی سے تھامنے کی بہت ترغیب دی اورپھر فرمایا‘‘دوسری چیز میرے اہل بیت ہیں،اپنے اہل بیت کے بارے میں ،میں تمہیں اللہ یاد دلاتا ہوں ،اپنے اہل بیت کے بارے میں ،میں تمہیں اللہ یاد دلاتا ہوں ۔’’ایک روایت میں الفاظ یہ ہیں کہ آپؐ نے قرآن مجید کے بارے میں فرمایا کہ ‘‘وہ اللہ کی رسی ہے ،جس نے اسے مضبوطی سے تھام لیا وہ ہدایت پر ہے اورجس نے اسے ترک کردیا وہ گمراہی میں مبتلا ہے۔’’

اس مضمون کی اوربھی بہت سی احادیث ہیں،حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اوران کے بعد کے تمام اہل علم وایمان کا ا س بات پر اجماع ہے کہ کتاب اللہ اوراس کے ساتھ ساتھ سنت رسول اللہ ﷺکو بھی مضبوطی سے تھامنا ،ان کے مطابق فیصلہ کرنا اورتمام امور ومعاملات میں انہی کی طرف رجوع کرنا واجب ہے ،یہ اجماع ہی اس بات کی کافی وشافی دلیل ہے لہذا اس سلسلہ میں وارددلائل کو ذکر کرکے ہم بات کو طول نہیں دینا چاہتے۔

جن اصول ثلاثہ پر تمام امت کا اجماع ہے ،ان میں سے دوسرا اصل رسول اللہ ﷺکی حدیث ہے ،چنانچہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اوران کے بعد کے تمام اہل علم وایمان اس اصل اصیل پرایمان رکھتے ہیں،اسے دین میں حجت گردانتےہیں،امت کو اس کی تعلیم دیتے ہیں،اس موضوع پر انہوں نے بہت سی کتابیں تصنیف فرمائیں ،کتب اصول فقہ واصول حدیث میں بھی اسے واضح فرمایااوراس سلسلہ کے دلائل اس قدر زیادہ ہیں کہ انہیں احاطہ شمارمیں نہیں لایا جاسکتا ،چنانچہ انہی دلائل میں سے ایک دلیل یہ بھی ہے کہ خود کتاب اللہ میں رسول اللہ ﷺکی اتباع واطاعت کا حکم دیا گیا ہے اوریہ حکم جیسا کہ آپؐ کے ہم عصر لوگوں کے لئے تھا،اسی طرح بعد میں آنے والے لوگوں کے لئے بھی ہے کیونکہ آپ ؐتمام انسانوں کے لئے رسول ہیں۔آپؐ کی بعثت سے لے کرقیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لئے یہ حکم ہے کہ وہ آپؐ کی اتباع واطاعت بجالائیں اورپھریہ اس لئے بھی کہ رسول اللہ ﷺہی کتاب اللہ کے مفسر ہیں۔کتاب اللہ میں جو باتیں اجمال کے ساتھ بیان کی گئی تھیں ،آپؐ نے اپنے اقوال،افعال اورتقریرات کے ذریعے ان کی تفصیل بیان فرمادی ہے اگررسول اللہ ﷺکی سنت نہ ہوتی تومسلمانوں کو ہرگزیہ معلوم نہ ہوسکتا تھا کہ نمازوں کی رکعات کی تعدادکیا ہے ؟نمازوں کوکس طرح اداکرنا ہے،نماز کے فرائض وواجبات کون کون سے ہیں؟اسی طرح انہیں روزہ ،زکوۃ ،حج ،جہاد ،امربالمعروف،نہی عن المنکر،معاملات ،محرمات اورحدودوتعزیرات کے احکام کی بھی تفصیلات معلوم نہیں ہوسکتی تھیں۔

اتباع واطاعت رسول کے متعلق میں جو آیات کریمہ ہیں،ان میں سے چند ایک حسب ذیل ہیں:

﴿وَأَطِيعُوا اللَّـهَ وَالرَّ‌سُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْ‌حَمُونَ﴾ (آل عمران۳/١٣٢)

‘‘اوراللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کروتاکہ تم پر رحم کیا جائے۔’’

نیزفرمایا:

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّ‌سُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ‌ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُ‌دُّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّ‌سُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ‌ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ‌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا﴾ (النساء۴/۵۹)

‘‘اے ایمان والو!اللہ اوراس کے رسول کی فرماں برداری کرواورجوتم میں سے صاحب حکومت ہیں ان کی بھی اوراگرکسی بات میں تمھارا اختلاف واقع ہو تواگراللہ اورروزآخرت پر ایمان رکھتے ہوتواس میں اللہ اوراس کے رسول (کے حکم) کی طرف رجوع کرو۔یہ بہت اچھی بات ہے اوراس کاانجام (نتیجہ) بھی اچھا ہے۔’’

مزیدفرمایا

﴿مَّن يُطِعِ الرَّ‌سُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّـهَ ۖ وَمَن تَوَلَّىٰ فَمَا أَرْ‌سَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا﴾ (النساء۴/۸۰)

‘‘جس شخص نے رسول کی فرماں برداری کی تو بے شک اس نے اللہ کی فرماں برداری کی اورجو نافرمانی کرے تواے پیغمبر!تمہیں ہم نے ان کا نگہبان بنا کر نہیں بھیجا۔’’

اگرآپؐ کی سنت حجت نہیں یا تمام سنت محفوظ نہیں تو پھر آپؐ کی اطاعت کیسے ممکن ہے؟اورتنازعات کے تصفیہ کے لئے کتاب اللہ اورسنت رسول اللہ ﷺکی طرف رجوع کرنا کیسے ممکن ہے ؟سنت کو حجت یا محفوظ تسلیم نہ کرنے کے معنی یہ ہوں گے کہ اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو ایک ایسی چیز کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا ہے جس کا کوئی وجود ہی نہیں ہےحالانکہ ایسا خیال کرنا بے حد باطل ،اللہ تعالی کی ذات گرامی کے ساتھ بہت بڑا کفر اوربدگمانی ہے۔اللہ تعالی نے سورہ نحل میں ارشادفرمایاہے:

﴿وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ‌ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُ‌ونَ﴾ (النحل۴۴/۱۶)

‘‘اورہم نے آپ کی طرف یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو ( ارشادات) لوگوں کی جانب نازل فرمائے گئے ہیں آپ کھول کھول کربیان کردیں تاکہ وہ غور کریں۔’’

اسی سورہ مبارکہ میں مزید فرمایا:

﴿وَمَا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ إِلَّا لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُوا فِيهِ ۙ وَهُدًى وَرَ‌حْمَةً لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ﴾ (النحل ۶۴/۱۶)

‘‘اورہم نے اس لئے یہ کتاب نازل کی ہے کہ جس امر میں لوگوں کو اختلاف ہےآپ اس کا فیصلہ کردیں اور (یہ) مومنوں کے لئے ہدایت اوررحمت ہے۔’’

اگررسول اللہ ﷺکی سنت کا وجود نہیں ہے یا وہ حجت نہیں ہے توپھر یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ اللہ تعالی اپنی کتاب کی توضیح وتشریح کاکام آپؐ کے سپرد فرمائیں،اسی طرح اللہ تعالی نے سورہ نورمیں بھی ارشادفرمایاہے:

﴿قُلْ أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّ‌سُولَ ۖ فَإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْهِ مَا حُمِّلَ وَعَلَيْكُم مَّا حُمِّلْتُمْ ۖ وَإِن تُطِيعُوهُ تَهْتَدُوا ۚ وَمَا عَلَى الرَّ‌سُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ﴾ (النور۲۴/٥٤)

‘‘ (اے پیغمبر!) کہہ دیجئے کہ اللہ کی فرماں برداری کرو اوررسول کے حکم پر چلو،اگرمنہ موڑوگے تورسول پر (اس چیز کو اداکرنا) ہے جو ان کے ذمے ہےاورتم پر (اس چیز کا اداکرنا) جو تمہارے ذمے ہےاوراگرتم ان کے فرمان پر چلو گے تو سیدھا راستہ پالوگے اوررسول اللہ کے ذمے توصاف صاف (اللہ کے احکام کا ) پہنچادینا ہے۔’’

اسی سورت میں اللہ تعالی نے یہ بھی فرمایا :

﴿وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَطِيعُوا الرَّ‌سُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْ‌حَمُونَ﴾ (النور۵۶/۲۴)

‘‘اورنمازپڑھتے رہواورزکوٰۃدیتے رہواور (اللہ کے) پیغمبرکےفرمان پرچلتےرہوتاکہ تم پررحم کیا جائے۔’’

سورہ الاعراف میں فرمایا:

﴿قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَ‌سُولُ اللَّـهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ ۖ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ يُحْيِي وَيُمِيتُ ۖ فَآمِنُوا بِاللَّـهِ وَرَ‌سُولِهِ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللَّـهِ وَكَلِمَاتِهِ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ﴾

 (الاعراف۱۵۸/۷)

‘‘ (اے محمدﷺ!) کہہ دو کہ لوگو!میں تم سب کی طرف اللہ تعالی کا بھیجا ہوا ہوں (یعنی اس کا رسول ہوں) وہ جو آسمانوں اورزمین کا بادشاہ ہے ،اللہ کو چھوڑ کر (یعنی اس کے سوا) کوئی معبود نہیں ،وہی زندگانی بخشتا ہے اوروہی موت دیتا ہے،تواللہ پراوراس کےرسول پیغمبر امی پر ،جواللہ پر اوراس کے تمام کلام پر ایمان رکھتے ہیں ،ایمان لاواوران کی پیروی کروتاکہ ہدایت پاو۔’’

یہ آیات اس امر پر واضح طورپر دلالت کررہی ہے کہ ہدایت اوررحمت نبی علیہ السلام کی اتباع میں مضمر ہے ،اورسنت پر عمل کے بغیر آپؐ کی تباع واطاعت کس طرح ممکن ہے؟یا اگریہ کہا جائے کہ سنت حجت نہیں یا قابل اعتماد نہیں تواس صورت میں بھی کس طرح سنت کی اتباع ممکن ہے ؟اوراللہ عزوجل نے سورہ نور میں فرمایاہے:

﴿فَلْيَحْذَرِ‌ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِ‌هِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾ (النور۲۴/۶۳)

‘‘جولوگ ان (یعنی پیغمبر) کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں،ان کو ڈرنا چاہئے (ایسا نہ ہوکہ) ان پر (دنیا میں) کوئی آفت پڑجائے یا (آخرت میں) تکلیف دینے والاعذاب نازل ہو۔’’

اورسورہ حشر میں ارشادفرمایا:

﴿وَمَا آتَاكُمُ الرَّ‌سُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۖ إِنَّ اللَّـهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ﴾ (الحشر۷/۵۹)

‘‘جوچیزتمھیں رسول (ﷺ) دیں وہ لےلواورجس سےمنع کریں (اس سے) رک جاو۔’’

اس مضمون کی اوربھی بہت سی آیات کریمہ ہیں جو سب کی سب اس امر پردلالت کرتی ہیں کہ آپؐ کی اطاعت اورآپؐ کے لائے ہوئے دین وشریعت کی اتباع واجب ہے جیسا کہ قبل ازیں وہ دلائل بھی بیان کئے جاچکے ہیں کتاب اللہ کی اتباع ،اسے مضبوطی کے ساتھ تھامنے اوراس کے اوامرونواہی کی اطاعت پر دلالت کرتے ہیں۔دین کے یہ دونوں اصل قیامت تک باقی رہنے والی نہ ہوتی توآپؐ اس کی تبلیغ کا حکم نہ دیتے،اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سنت اس شخص کے لئےحجت ہےجس نے اسے آپؐ کی زبان فیض ترجمان سے سنا ہواوراس کےلئے بھی یہ حجت ہے جس کے پاس یہ صحیح اسنادکے ساتھ پہنچی ہو۔

حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ ﷺکی قولی اورفعلی احادیث کو یاد کیا اورپھر انہیں تابعین تک پہنچادیا ،پھرتابعین نے انہیں بعد میں آنے والوں تک پہنچادیا اورپھرا س کے بعد نسل درنسل اورقرن درقرن ثقہ علماء نے احادیث مبارکہ کو منتقل کیا،انہیں مستقل کتابوں میں جمع کیا اورصحیح وضعیف کو بھی واضح کردیا اوراس سلسلہ میں مشہور ومعروف قوانین اورٖضوابط بھی مقررکئے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ سند صحیح ہے یا ضعیف ،اہل علم نے کتب حدیث مثلا صحیحین وغیرھماکو قبولیت سے نوازااوران کی مکمل طورپر حفاظت کی ،جس طرح اللہ تعالی نے اپنی کتاب مقدس کی حفاظت کا بھی اہتمام فرمایااوراسے بے ہودہ لوگوں کے لغو،ملحدوں کے الحاد اورباطل پرستوں کی تحریف سے بچایا تاکہ اس ارشادباری تعالی کی حقانیت ثابت ہوجائے کہ:

﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ‌ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ﴾ (الحجر۱۵/۹)

‘‘بے شک یہ (کتاب) نصیحت ہمیں نے اتاری ہے اورہم ہی اس کے نگہبان ہیں۔’’

بلا شک وشبہ رسول اللہ ﷺکی سنت بھی اللہ تعالی کی طرف سے نازل کردہ وحی ہے اوراس کی حفاظت کا بھی اللہ تعالی نے اس طرح ذمہ اٹھایا ہے،جس طرح اس نے اپنی کتاب مقدس کی حفاظت کا ذمہ اٹھایا ہے اوراس مقصد کے لئےاللہ تعالی نے نقاد علماء کو توفیق بخشی جنہوں نے باطل پرستوں کی تحریف اورجاہلوں کی تاویل کی نفی کردی اورسنت کے رخ زیبا سے ہر اس آلائش کو دورکردیا جسے جاہل ،کذاب اورملحد لوگوں نے چپکانے کی کوشش کی تھی اللہ تعالی نے یہ اہتمام اس لئے فرمایا ہے ،

سنت رسول اللہ،کتاب اللہ کی تفسیر ہے ،مجمل احکام کی تفصیل ہے اورپھر سنت

 رسول اللہ ﷺمیں کئی مستقل ایسے احکام بھی ہیں،جن کے بارے میں قرآن مجیدمیں ذکر نہیں ہے مثلا احکام رضاعت تفصیل ،میراث کے بعض احکام ،ایک شخص کا ،عورت اوراس کی پھوپھی یا خالہ سے بیک وقت نکاح کا حرام ہونا اوردیگر بہت سے وہ احکام جوصرف سنت صحیحہ سے ثابت ہوتے ہیں اورکتاب اللہ میں ان کاکوئی ذکر نہیں ہے۔

اب ہم حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تابعین عظام رحمۃ اللہ علیہم اوران کے بعد اہل علم کے حوالہ سے کچھ ایسی باتیں بیان کریں گے جن سے یہ معلوم ہوگا کہ ان کے ہاں سنت کی کس قدرتعظیم تھی اوروہ اس کے مطابق عمل کو کس طرح واجب قراردیتے تھے،چنانچہ صحیحین میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے انتقال فرمایاتوکچھ عرب قبائل مرتد ہوگئے (اورانہوں نے زکوۃ اداکرنے سے انکار کردیا) تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا‘‘اللہ کی قسم!میں ہر اس شخص کے خلاف جہاد کروں گاجونماز اورزکوۃ میں فرق کرے گا۔’’حضرت عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا‘‘آپ ان سےکس طرح جہاد کرسکتے ہیں،جب کہ رسول اللہ ﷺنے تویہ فرمایاہے کہ مجھے لوگوں سے اس وقت تک جہاد کرنے کا حکم ہے جس وقت تک کہ وہ لا الہ الاللہ کے قائل نہیں ہوجاتے،جب وہ لا الہ الاللہ کے قائل ہوجائیں گے تومجھ سے اپنے خون اورمال کو بچالیں گےالایہ لا الہ الاللہ کا کوئی حق ہو۔’’حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ یہ سن کر فرمایا‘‘کیا زکوۃ لا الہ الاللہ کا حق نہیں ہے ؟اللہ کی قسم!اگریہ لوگ بکری کے اس بچے کے بطورزکوۃ دینے سے انکار کریں گے ،جسے وہ رسول اللہ ﷺکے زمانے میں اداکیا کرتے تھے تومیں اس انکا رکی وجہ سے بھی ان کے خلاف جہا دکروں گا۔’’حضرت عمررضی اللہ عنہ نے

لازم وملزوم ہیں جوان میں سے کسی ایک کا انکار کرتا ہے ،وہ گویا دوسرے کا بھی انکار اورتکذیب کرتا ہےاوریہ انکار کفراورضلالت ہے اوراس پر تمام اہل علم وایمان کا اجماع ہے کہ یہ انکار دائرہ اسلام سے خارج ہوجانے کے مترادف ہے۔

رسول اللہ ﷺکی وہ احادیث مبارکہ تواتر سے ثابت ہیں،جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ کی اطاعت اورآپؐ کی سنت کی اتباع واجب ہےاورآپؐ ی نافرمانی حرام ہے،آپؐ کی نافرمانی ا س (شخص) کے لئے بھی حرا م ہے جو آپؐ کے زمانہ میں ہواورہراس شخص کے لئے بھی حرام ہے جو قیامت تک آنے والا ہو۔صحیحین میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ

رسول اللہ ﷺنے فرمایا:‘‘جو شخص میری اطاعت کرے،وہ گویا اللہ تعالی کی اطاعت کرتا ہےاورجو میری نافرمانی کرےگویا اللہ تعالی کی نافرمانی کرتا ہے ۔’’صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺنے ارشاد فرمایا ہے کہ‘‘میری ساری امت جنت میں داخل ہوگی مگر وہ شخص جنت میں جانے سے انکارکردےگا۔’’عرض کیا گیا‘‘یارسول اللہ !انکارکون کرے گا؟’’آپؐ نے فرمایا‘‘جو شخص میری اطاعت کرے گاوہ جنت میں داخل ہوگا اورجوشخص میری نافرمانی کرے گااس نےگویا جنت میں جانے سے انکار کردیا۔’’امام احمد،ابوداود اورحاکم نے صحیح سند کے ساتھ حضرت مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ کی یہ روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺنےفرمایا‘‘خبردارآگاہ رہو!کہ مجھے کتاب دی گئی ہے اوراس کے ساتھ اس کی مثل بھی (یعنی سنت) ،ممکن ہے کہ عنقریب ایک آدمی،اپنے تکیہ کے ساتھ ٹیک لگائے ہوئےیہ کہے کہ بس اس قرآن ہی کو لازم پکڑلو،اس میں جو حلال پاوبس اسی کو حلال سمجھواوراس میں جو حرام دیکھو بس اسی کو حرام گردانو۔’’

امام ابوداود اور ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہم صحیح سند کے ساتھ ابن ابی رافع سے روایت کرتے ہیں اوروہ اپنے باپ ابورافع رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا‘‘میں تم میں سے کسی کو (اس کے) اپنے تکیہ کے ساتھ ٹیک لگائے ہوئے اس طرح نہ پاوں کہ اس کے پاس امر یا نہی پر مشتمل میرا کوئی حکم آئے اوروہ کہے کہ ہمیں اس کا علم نہیں۔ہم جوکتاب اللہ میں پائیں گے بس اسی کی پیروی کریں گے۔’’

حسن بن جابر سے روایت ہے کہ میں نے حضرت مقدام بن معدی کرب رضی اللہ عنہ کو بیان کرتے ہوئے سنا کہ ‘‘رسول اللہ ﷺنے خیبر کے دن کچھ چیزوں کو حرام قراردیا اورپھر فرمایا،قریب ہے کہ تم میں سے کوئی (شخص ) میری تکذیب کرے،وہ تکیہ لگائے ہو،میری حدیث (اس کے سامنے ) بیان کی جائے تووہ کہے کہ ہمارے تمہارے درمیان کتاب اللہ موجودہے،ہم اس میں جس چیز کو حلال پائیں گے اسے حلال سمجھیں گے اورجس کو حرام پائیں گے اس کو حرام گردانیں گے لیکن یاد رکھو جن چیزوں کو رسول اللہ ﷺنے حرام قراردیا ہے،وہ بھی اسی کے مثل ہیں،جن کو اللہ تعالی نے حرام قراردیاہے۔’’اس حدیث کو امام حاکم ،ترمذی اورابن ماجہ نے صحیح سند کے ساتھ بیان کیا ہے۔

رسول اللہ ﷺکی وہ احادیث حد تواترتک پہنچی ہوئی ہیں جن میں یہ ہے کہ آپؐ اپنے خطبہ میں حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کویہ وصیت فرمایا کرتے تھے کہ جو لوگ یہاں حاضر ہیں،وہ ان تک پہنچادیں جو غائب ہیں،آپؐ صحابہ رضی اللہ عنہم سے یہ بھی فرماتے کہ کئی وہ لوگ جن تک بات کوپہنچایا گیا ہو،سننے والے سے بھی زیادہ یاد رکھنے والے ہوسکتے ہیں،چنانچہ صحیحین میں ہے کہ نبی کریمﷺنے جب حجۃ الوداع کے موقعہ پر عرفہ میں قربانی کے دن خطبہ دیا تو اس میں یہ بھی ارشادفرمایاکہ‘‘جوحاضر ہیں،وہ ان تک پہنچادیں جو یہاں موجود نہیں ہیں کیونکہ بہت سے لوگ جن تک بات کو پہنچایا گیا ہو ،ہوسکتا ہے کہ وہ ’’سننے والے سے بھی زیادہ یاد رکھنے والے ہو۔’’اگرسنت سننے والے اورسنائے جانے والے کے لئے حجت نہ ہوتی اورفرمایاہے کہ یہ سن کر مجھے معلوم ہوگیا کہ اللہ تعالی نےحضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کو جہاد کے لئے شرح صدر عطافرمایااورمجھے یقین ہوگیا کہ آپ کی بات ہی حق ہے ،دیگر تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کی اطاعت کی اورانہوں نے مرتدین کے خلاف جہاد کرکے انہیں دوبارہ دائرہ اسلام میں داخل کردیا اورجس نے اپنے ارتدادپر اصرارکیا اسے تہہ تیغ کردیا ،یہ واقعہ سنت کی عظیم تعظیم اوراس کے مطابق عمل کرنے کے وجوب کے بے حد واضح دلیل ہے۔

اسی طرح ایک دادی ،حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوکر پوچھنے لگی کہ میراث میں ا س کا کتنا حصہ ہے؟فرمایا‘‘کتاب اللہ میں توتمہاراحصہ مذکور نہیں ہے اوررسول اللہ ﷺکا اس سلسلہ میں کوئی فیصلہ مجھے معلوم نہیں لہذا میں اس مسئلہ کے بارے میں لوگوں سے پوچھوں گا۔’’چنانچہ جب آپ نےحضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سےپوچھاتوبعض لوگوں نےبیان کیاکہ نبی کریمﷺنےدادی کومیراث سےچھٹاحصہ عطافرمایاتھا،چنانچہ حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ نےاسی سنت کےمطابق فیصلہ فرمایا۔

حضرت عمررضی اللہ عنہ اپنےعمال کویہ وصیت فرمایاکرتےتھےکہ وہ لوگوں کےدرمیان کتاب اللہ کےمطابق فیصلہ کریں۔اگرکتاب اللہ میں وہ مسئلہ موجودنہ ہوتوسنت رسول اللہﷺکےمطابق فیصلہ کریں،حضرت عمررضی اللہ عنہ کوجب‘‘املاص المرأۃ’’یعنی عورت کےجنبین کومردہ گرادینےکےمسئلہ میں دشواری محسوس ہوئی توانہوں نےحضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سےاس مسئلہ کےبارےمیں پوچھاتومحمدبن مسلمہ اورمغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہمانےگواہی دی کہ نبی کریمﷺنےاس مسئلہ میں یہ فرمایاتھاکہ ایک غلام یاباندی (لونڈی) دی جائے،چنانچہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نےاسی کےمطابق فیصلہ فرمادیا۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کوجب اس مسئلہ میں دشواری محسوس ہوئی کہ عورت اپنےشوہرکی وفات کےبعدعدت کہاں گزارےتوفریعہ بنت مالک بن سنان رضی اللہ عنھاجوکہ ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کی بہن تھیں نےبتایاکہ نبی کریمﷺنےان کےشوہرکی وفات کےبعدانہیں یہ حکم دیاتھاکہ وہ اپنےگھرہی میں رہیں جب تک کہ عدت پوری نہ ہو،چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نےیہ فرمان نبوی سن کراس کےمطابق فیصلہ فرمادیا۔اسی طرح آپ نےولیدبن عقبہ پرحدشراب جاری کرنےکےبارےمیں بھی سنت کےمطابق فیصلہ فرمایا۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ کوجب یہ معلوم ہواکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ حج تمتع سےمنع فرماتےہیں توانہوں نےحج وعمرہ کااکٹھااحرام باندھ لیااورکہاکہ میں کسی کےقول کی وجہ سےرسول اللہﷺکی سنت کونہیں چھوڑسکتا۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہماسےجب بعض لوگوں نےحج تمتع ہی کےبارےمیں بات کرتےہوئےکہاکہ حضرت ابوبکروعمررضی اللہ عنہماتویہ کہتےہیں کہ حج کومفرواداکرنازیادہ بہترہے،توانہوں نےفرمایا‘‘مجھےیہ ڈرہےکہ تم پرکہیں آسمان سےپتھروں کی بارش برسنانہ شروع ہوجائےکہ میں تویہ کہتاہوں کہ رسول اللہﷺنےیہ فرمایاہےاورتم یہ کہتےہوکہ ابوبکروعمریہ کہتےہیں۔قابل غوریہ بات ہےکہ اگررسول اللہﷺکےفرمان کےمقابلہ میں حضرت ابوبکروعمررضی اللہ عنہماکی بات پرعمل کرنےکی صورت میں بھی عذاب الہٰی کی گرفت میں آنےکااندیشہ ہوسکتاہےتوپھرکوئی اورکس گنتی اورشمارمیں ہوسکتاہے؟یافرمان نبوی کےمقابلہ میں کسی کی رائےیااجتہادکی کیاحیثیت ہوسکتی ہے؟کچھ لوگوں نےحضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہماسےجب کسی سنت کےبارےمیں اختلاف کیااورکہاکہ حضرت عمررضی اللہ عنہ تویہ فرماتےہیں توحضرت عبداللہ نےفرمایالوگو!یہ بتاؤکیاہمیں حضرت عمررضی اللہ عنہ کی اتباع کاحکم دیاگیاہےیاہمیں یہ حکم ہےکہ ہم رسول اللہﷺکی سنت کی اتباع کریں؟

ایک بارحضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ،سنت رسول اللہﷺکےحوالہ سےایک مسئلہ بیان فرمارہےتھےتوایک آدمی نےجب یہ کہاکہ ہمیں کتاب اللہ کےحوالہ سےبتائیےتوحضرت عمران رضی اللہ عنہ بہت ناراض ہوئےاورفرمایاکہ سنت،کتاب اللہ کی تفسیرہی توہے،اگرسنت نہ ہوتی توہمیں یہ معلوم نہ ہوتاکہ ظہرکی چاررکعتیں ہیں،مغرن کی تین ہیں اورصبح کی دوہیں۔اسی طرح ہمیں احکام زکوٰۃکیبھی تفصیل معلوم نہیں ہوسکتی تھی،علاوہ ازیں دیگربہت سےاحکام بھی ایسےہیں جن کی تفصیل ہمیں صرف سنت ہی سےمعلوم ہوسکتی ہے۔

سنت کی عظمت،اس کےمطابق عمل کےوجوب اوراس کی مخالفت سےاجتناب کےبارےمیں حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سےبہت سےآثارمروی ہیں مثلاحضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہمانےجب رسول اللہﷺکی یہ حدیث بیان کی کہ:

 ( (لاتمتعوااماءالله مساجدالله) )

‘‘اللہ کی بندیوں کواللہ تعالیٰ کی مسجدوںمیں جانےسےمنع نہ کرو۔’’

توان کےایک بیٹےنےکہا،اللہ کی قسم!ہم تو انہیں منع کریں گے تویہ سن کرحضرت عبداللہ سخت ناراض ہوئے اورانہیں بہت سخت سست کہا اورفرمایاکہ میں یہ کہتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایاہے انہیں منع نہ کرواورتوکہتا ہے کہ اللہ کی قسم!ہم انہیں منع کریں گے۔’’

ایک بارجلیل القدر صحابی حضرت عبداللہ بن مغفل مزنی رضی اللہ عنہ نے جب اپنے ایک رشتہ دارکو کنکری پھینکتے ہوئے دیکھاتواسے منع کیا اورکہا کہ رسول اللہﷺنے اس سے منع کیا ہے اورفرمایاہے کہ ‘‘اس سے آدمی نہ توشکار کرسکتا ہےاورنہ دشمن کو قتل کرسکتا ہے ہاں البتہ اس سے دانت ٹوٹ سکتا ہے اورآنکھ پھوٹ سکتی ہے۔’’اس حدیث کے سنانے کے بعدانہو ں نے جب اسے پھر کنکری مارتے ہوئے دیکھا توفرمایامیں تجھ سے کبھی بھی بات نہیں کروں گا کیونکہ میں نے تجھے یہ حدیث سنائی ہے کہ رسول اللہ نے اس سے منع فرمایاہے ،اس کے باوجود تو کنکری پھینکتا ہے۔

امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے جلیل القدر تابعی حضرت ایوب سختیانی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول ذکر کیا ہے کہ جب آپ کسی آدمی سےحدیث بیان کریں اوروہ یہ کہے کہ اسے چھوڑ دو اوراس کی بجائے ہمیں قرآن سے بیان کروتوجان لوکہ وہ گمراہ ہے۔

امام وزاعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سنت تو کتاب اللہ کا فیصلہ کرتی ہے یعنی

 کتاب اللہ کے مطلق کو مقید کرتی یا ایسے بہت سے احکام کو بیان کرتی ہے جو کتاب اللہ میں مذکور نہیں ہیں جیسا کہ ارشادباری تعالی ہے:

﴿وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ‌ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُ‌ونَ﴾ (النحل۴۴/۱۶)

‘‘اورہم نے آپ پر یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو (ارشادات) لوگوں کی جانب نازل فرمائے گئے ہیں آپ وہ کھول کھول کربیان کردیں تاکہ وہ غورفکرکریں۔’’

رسول اللہ ﷺکا یہ ارشاد گرامی قبل ازیں بیان کیا جاچکا ہے کہ لوگو!دیکھو مجھے کتاب بھی دی گئی ہے اوراس کے ساتھ اس کی مثل بھی (یعنی حدیث) امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نےعامر شعبی رحمۃ اللہ علیہ کا قو ل بیان کیا ہے کہ انہوں نے کچھ لوگوں سے کہا کہ اگر تم آثار کو چھوڑ دوگے توتباہ وبربادہوجاوگے،آثار سے آپ کی مراداحادیث صحیحہ ہیں۔ امام بیہقی نےاوزاعی رحمۃ اللہ علیہ کاہی یہ قو ل نقل کیا ہے کہ انہوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اگر تمہیں رسول اللہ ﷺکی کوئی حدیث پہنچ جائے توپھر اسے مضبوطی سے تھام لواورباقی سب کچھ چھوڑ دوکیونکہ رسول اللہ ﷺ،اللہ تعالی کی طرف سے دین کے مبلغ تھے ،امام بیہقی نے جلیل القدرامام حضرت سفیان بن سعید ثوری رحمۃ اللہ علیہ کا بھی قول ذکر فرمایاہے کہ علم توعلم حدیث ہی کا نام ہے ۔حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ارشادفرمایا کرتے تھے کہ ہم میں سے ہر ایک کی بات رد کی جاسکتی ہےمگر اس ذات گرامی کی بات کو رد نہیں کیا جاسکتا جو اس قبرمیں محو استراحت ہے ،یہ کہتے ہوئے آپ رسول اللہ ﷺکی قبرشریف کی طرف اشارہ فرماتے ،حضرت الامام ابوحنیفہ

 رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد ہے کہ رسول اللہ ﷺکی حدیث توسرآنکھوں پر ہے ۔

حضرت الامام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرمایاکرتے تھے کہ اگر میں تم سے رسول اللہ ﷺکی کوئی صحیح حدیث بیان کروں اورخود اس پر عمل نہ کروں توپھر تمہیں گواہ بناکر یہ کہتا ہوں کہ بس سمجھ لوکہ میری عقل جواب دے گئی ہے ،اسی طرح آپ یہ بھی فرمایاکرتے تھے کہ اگرکوئی بات کہوں اوررسول اللہ ﷺکی حدیث اس کے خلاف ہوتومیری با ت کو دیوارپر دے مارو۔

حضرت الامام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے کچھ رفقاء سے بات کرتے ہوئے فرمایاکہ میری تقلید نہ کرو،مالک اورشافعی کی بھی تقلید نہ کروبلکہ دین کو وہاں سے لوجہاں سے ہم نے لیا ہے (یعنی کتاب وسنت سے) ۔آپ یہ بھی فرمایاکرتےتھےکہ مجھےان لوگوں پربہت تعجب ہےجواسنادکوجانتےاوررسول اللہﷺکی طرف سےاس کی صحت کوپہچانتےہیں اورپھراسےچھوڑکرسفیان کی رائے کواختیارکرلیتےہیں حالانکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کاارشادگرامی ہے:

﴿فَلْيَحْذَرِ‌ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِ‌هِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾ (النور۶۳/۲۴)

‘‘جولوگ ان (یعنی رسول اللہ) کےحکم کی مخالفت کرتےہیں،ان کوڈرناچاہئے (ایسانہ ہوکہ) ان پر (دنیامیں) کوئی آفت پڑجائےیا (آخرت میں) تکلیف دینےوالاعذاب نازل ہو۔’’

پھرآپ نےفرمایاکیاتمہیں معلوم ہےکہ س آیت میں‘‘فتنہ’’سےکیامرادہے؟فتنہ سےمرادشرک ہےلہٰذااس بات کاشدیدخطرہ ہےکہ جب کوئی شخص رسول اللہﷺکےکسی ارشادکوردکردےتواس جرم کی پاداش میں اللہ تعالیٰ اس کےدل میں کوئی کجی پیدافرمادےجس سےوہ ہلاک ہوجائے۔

امام بیہقی رحمتہ اللہ علیہ نےجلیل القدرتابعی (اورمفسر) حضرت مجاہدبن جبررحمتہ اللہ علیہ کابھی یہ قول نقل کیاہےکہ ارشادباری تعالیٰ:

﴿فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُ‌دُّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّ‌سُولِ﴾ (النساء۵۹/۴)

‘‘اوراگرکسی بات میں تمہاراآپس میں اختلاف واقع ہوجائےتواس میں اللہ اوراس کےرسول کی طرف رجوع کرو۔’’

اس میں،اللہ کی طرف رجوع سےمراد‘‘کتاب اللہ’’اوررسول اللہﷺکی طرف رجوع سےمراد‘‘سنت رسول اللہ’’کی طرف رجوع ہے۔امام بیہقی رحمتہ اللہ علیہ نے امام زہری رحمتہ اللہ علیہ کابھی یہ قول ذکرفرمایاہےکہ‘‘ہمارےعلماےکرام یہ فرمایاکرتےتھےکہ سنت رسول اللہﷺکومضبوطی سےتھام لینانجات کی ضمانت ہے۔’’موفق الدین ابن قدامہ رحمتہ اللہ علیہ نےاپنی کتاب‘‘روضتہ الناظرفی بیان اصول الاحکام’’میں لکھاہےکہ‘‘اولہ شرعیہ میں سےاصول ثانی،سنت رسول اللہﷺہے،رسول اللہﷺکافرمان خجت ہےکہ اللہ تعالیٰ نےآپ کومعجزانہ صداقت سےنوازا،آپ کی اطاعت کاحکم دیااورآپ کےفرمان کی مخالفت سےڈرایاہے۔

حافظ ابن کثیررحمتہ اللہ علیہ ارشادباری تعالیٰ:

﴿فَلْيَحْذَرِ‌ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِ‌هِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾ (النور۶۳/۲۴)

‘‘جولوگ ان کےحکم کی مخالفت کرتےہیں،ان کوڈرناچاہئے (ایسانہ ہوکہ) ان پر کوئی (دنیامیں) آفت پڑجائےیا (آخرت میں) تکلیف دینےوالاعذاب نازل ہو۔’’

اس کی تفسیرمیں فرماتےہیں کہ اس میں‘‘امر’’سےمرادرسول اللہﷺکاراستہ،دستور،طریقہ،سنت اورشریعت ہے۔تمام اقوال واعمال کوآپ کےاعمال واقوال کی کسوٹی پررکھاجائےگاجوآپ کےاعمال وارشادات کےمطابق ہوں گےوہ مقبول اورجومخالف ہوں گےوہ مردودقرارپائیں گےخواہ انہیں سرانجام دینےوالاقائل وفاعل کوئی بھی ہوجیساکہ ‘‘صحیحین’’اوردیگرکتب حدیث میں رسول اللہﷺکایہ فرمان موجودہےکہ‘‘جس نےبھی کوئی ایساعمل کیاجوہمارےطریقےکےمطابق نہ ہوتووہ مردودہے’’لہٰذاجولوگ باطنی وظاہری طورپررسول اللہﷺکی شریعت کی مخالفت کرتےہیں انہیں ڈرناچاہئےکہ ان کےدلوں میں کفریانفاق یابدعت کافتنہ پیداہوجائےیاقتل یاحدیاقیدوغیرہ کی صورت میں کوئی عذاب الہٰی انہیں اپنی گرفت میں لےلےجیساکہ امام احمدنےعبدالرزاق،معمر،ھمام بن منبہ کی سندسےروایت بیان کی ہےحضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نےبیان کیاکہ رسول اللہﷺنےفرمایا‘‘میری اورتمہاری مثال اس آدمی کی طرح ہےجس نےآگ جلائی،جب آگ نےاپنےاردگردکوروشن کردیاتوکیڑوں مکوڑوں اورپتنگوں نےآگ میں گرناشروع کردیا،وہ آدمی انہیں آگ میں گرنےسےروکتاہےمگروہ اس پرغالب آکرآگ میں گرجاتےہیں یہ ہےمیری اورتمہاری مثال میں تمہیں جہنم کی آگ میں گرنےسےبچانےکےلئےتمہاری کمروں سےپکڑتاہوں اورکہتاہوں کہ آگ سےدورہوجاؤمگرتم مجھ پرغالب آکتجہنم کی آگ میں گررہےہو’’ (بخاری ومسلم رحمتہ اللہ علیہمانےان دونوں احادیث کوامام عبدالرزاق کی سندسےبیان کیاہے)

علامہ سیوطی نےاپنےرسالہ‘‘مفتاح الجنةفي الاحتجاج بااسنة’’میں لکھاہےکہ‘‘خوب جان لو!کہ جوشخص نبی کریمﷺکی حدیث،اصول کی معروف شرائط کےمطابق،خواہ وہ حدیث قولی ہویافعلی،کےحجت ہونےکاانکارکرے،وہ کافراوردائرہ اسلام سےخارج ہے،اس کاحشرمسلمانوں کےساتھ نہیں بلکہ یہودیوں،عیسائیوں یااللہ تعالیٰ کی مرضی ومشیت کےمطابق دیگرکافرفرقوں کےساتھ ہوگا۔’’حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم،تابعین عظام رحمتہ اللہ علیہم اوران کےبعدکےاہل علم کےسنت کی تعظیم،اس کےمطابق عمل کےوجوب اوراس کی مخالفت سےاجتناب کےبارےمیں بےشمارارشادات موجودہیں لیکن ہمیں امیدہےکہ ہم نےاس موضوع کےبارےمیں جوآیات،احادیث اورآثارذکرکئےہیں یہ ایک طالب حق کےلئےکافی ہیں۔ہم اللہ تعالیٰ سےاپنےلئےاورتمام مسلمانوں کےلئےدعاکرتےہیں کہ وہ ہمیں ان اعمال کےبجالانےکی توفیق عطاءفرمائےجواس کی رضااورخوشنودی کاموجب ہوں،اس کےناراضی کےاسباب سےبچنےکاباعث ہوں اوروہ محض اپنےفضل وکرم سےہم سب کوصراط مستقیم پرچلنےکی توفیق عطافرمائے۔

انه سميع قريب’وصلي الله وسلم علي عبده ورسوله نبينامحمدوعلي –له واصحابه واتباعه باحسان

 

 

مقالات وفتاویٰ ابن باز

صفحہ 427

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ