سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(344) کیایہ شرط ہے کہ زانی کو وہ رجم کرے جو خود پاک ہو؟

  • 7709
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1264

سوال

(344) کیایہ شرط ہے کہ زانی کو وہ رجم کرے جو خود پاک ہو؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عرب جمہوریہ یمن کے شہر‘‘تعز’’کی ایک شرعی عدالت نے زنا کی وج سے ایک عورت کو رجم کی سزاسنائی لیکن بعض لوگوں کو رجم کرنے میں ترددتھا اوران کا کہنا تھا یہ ضروری ہے کہ پتھر وہ مارے جس نے خود کوئی گناہ نہ کیا ہو،اس بارے میں اس طرح کی اوربھی بہت سی باتیں کی گئیں لہذامیں نے مناسب سمجھا کہ اس مسئلہ میں رہنمائی کےلئےآپ کی طرف رجوع کروں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مجھے اس بات سے بہت خوشی ہوئی ہے کہ ‘‘تعز’’کی شرعی عدالت نے شادی شدہ زانیہ (بدکارہ ) عورت کوسزائے رجم سنائی ہے کیونکہ اس حکم کے ذریعے درحقیقت اللہ تعالی کی مقررکردہ اس حد کو قائم کیا گیا ہے جسے اکثر اسلامی ملکوں نے معطل کررکھا ہے ۔اللہ تعالی اس عدالت کو جزائے خیر دےاورحکومت یمن اوردیگر تمام اسلامی ملکوں کی حکومتوں کو اللہ تعالی توفیق بخشے کہ وہ تمام معاملات میں خواہ ان کا تعلق حدود سے یا غیر حدودسے،بندگان الہی میں،اللہ تعالی کی شریعت کے مطابق فیصلہ کریں،بلاشبہ اللہ تعالی کی شریعت کے مطابق فیصلہ ہی میں ان کی خیروبھلائی اوردنیا وآخرت کی سعادت ہے۔حکم شریعت کے مطابق عمل کے سلسلہ میں مسلمانوں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنی حکومتوں کے ساتھ تعاون کریں۔

جو شخص شادی شدہ زانی کے رجم میں شرکت کرے اسے اجروثواب ملے گا اوراگر رجم کے بارے میں حکم شرعی صادرہوجائے توکسی کو اس میں حرج محسوس نہیں کرنا چاہئے۔نبی کریمﷺنے ماعزاسلمی،دویہودیوں اورغامدیہ وغیرہ کورجم کرنے کاصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا تھا توصحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے فورا فرمان نبوی پر عمل کردکھایا۔اللہ تعالی نے مسلمانوں کوتوفیق بخشے کہ وہ حدودوغیر حدود،تمام معاملات میں حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نقش قدم پر چلیں۔

رجم میں شرکت کرنے والے کے لئے یہ شرط نہیں ہے کہ وہ خود معصوم یا گناہوں سے پاک ہو کیونکہ رسول اللہ ﷺنے یہ شرط عائد نہیں فرمائی اورنہ کسی کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ ایسی شرط عائد کرے جس کی اللہ سبحانہ وتعالی کی کتاب اوررسول اللہ ﷺکی سنت سے کوئی دلیل موجود نہ ہو،واللہ الموفق۔

 

 

مقالات وفتاویٰ ابن باز

صفحہ 424

محدث فتویٰ

تبصرے