جونمازیں قضا ہوجائیں ان کوترتیب سے ادا کرنا چاہیئے یا بلا ترتیب ادا کی جائیں۔؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس مسئلہ میں بظاہر تین اہم باتیں ٹکرارہی ہیں۔
یہ حدیث ہے« فلاصلوة الاّ التی اقيمت لها» یعنی جب اقامت ہوتو اس نماز کے سوا کوئی نمازنہیں جس کی اقامت ہوئی۔
ترتیب نمازوں کا مسئلہ ہے۔جمہور کہتے ہیں۔ترتیب ضروری ہے۔بعض کہتے ہیں ضروری نہیں جمہور کی دلیل یہ ہے کہ ترمذی،نسائی،موطا میں ہے کہ جنگ خندق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چارنمازیں رہ گئی تھیں۔بخاری مسلم میں کم نمازوں کاذکرہے عشاء کےوقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےان کو ترتیب سےپڑھا۔پہلے ظہر پڑھی پھر عصر پھر مغرب پھر عشاء اورآپ نےعام طور پرفرمایا ہے «صلّوا کما رايتمونی اصلی»یعنی نماز اس طرح پڑھو جس طرح مجھے پڑھتا دیکھتے ہو۔
اس سےمعلوم ہوا کہ ترتیب سے پڑھنی ضروری ہیں۔
ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں۔
«واحتج الجمهوربقول النّبیّ صلی الله عليه وسلم من نام عن صلوة او نسيهافليصلها اذا ذکرها لاکفارة لها ذالک وفی لفظ فان ذالک وقتها» (جلداول فتاویٰ ابن تيمية )یعنی جمہور کی دلیل یہ ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا جوسوجائے یابھول جائے توجب یاد آئے پڑھ لے یہی اس کاکفارہ ہے۔اورایک روایت میں ہے یہی اس کاوقت ہے۔
جب یاد آنےکےوقت پڑھنے کاحکم ہوا۔اوریہی اس کا وقت ہوا تو اب دوسری نمازسےاس کو مؤخر کرنا جس کی اب اقامت ہوئی ہے ٹھیک نہ ہوا۔
مؤطا امام مالکؒ باب العمل فی جامع الصلوۃ صفحہ42 میں ہے۔
یعنی ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتےہیں جوشخص نمازبھول جائے اس کویاد نہیں آئی یہاں تک کہ دوسری نماز امام کےساتھ پڑھنے لگ گیا توجب امام سلام پھیرے پہلے بھولی ہوئی نماز پڑھے پھر دوسری پڑھے۔
یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔
«انّما جعل الامام ليؤتمّ به» یعنی امام کی تابعداری ضروری ہےجوامام کرے وہ کرنا چاہیئے۔
اس حدیث کی رو سےامام عشاء کی نماز پڑھتا ہوتواس کے ساتھ مغرب کی نماز کس طرح پڑھے۔اگرتین پرسلام پھیرے توامام کی مخالفت لازم آتی ہے۔اگرچارپڑھے تومغرب نہیں بنتی ۔اگرتین فرضوں کی نیّت کرے اورنفل کی نیت کرے تویہ بھی ایک انوکھی سی بات ہےکیونکہ وترکےسوا ایک نفل کاکہیں ثبوت نہیں ملتا اورنہ ہی فرض اورنفل کی اکٹھی نیت آئی ہے۔اگرٹھہرارہے یہاں تک کہ امام رکعت پڑھ لے تویہ سب سےزیادہ برا ہے۔
کیونکہ اذان سن کرٹھہرنے کی اجازت نہیں۔فورا ً نمازکےلئے آنا ضروری ہے۔ یہ اقامت سن کرشامل نہیں ہوتا۔اسی طرح اگرفجر کی نماز رہ گئی ہواوروہ ظہر کےساتھ پڑھنی چاہتا ہو تو اسکو بھی یہی مشکل ہوگی ہاں امام ایک یا دو رکعت پڑھ چکا ہو اوراس کے بعد یہ آیا ہو تواس صورت میں یہ مشکل نہیں لیکن کھٹکاسےیہ بھی خالی نہیں کیونکہ جب امام کی اقتداء میں یہ داخل ہوگیا توامام کی ساری نماز اس نے اپنے ذمہ کرلی۔اس لئے مسافرمقیم امام کے پیچھے پوری پڑھتا ہے۔چنانچہ تلخیص میں مسند امام احمد کی روایت ہے۔ابن عباس رضی اللہ عنہ سےسوال ہوکہ مسافر مقیم کےپیچھے پوری نماز کیوں پڑھتاہے ؟فرمایا« سنة ابی القاسم صلی الله عليه وسلم» یعنی یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اوراس کااصل نسائی ومسلم میں بھی ہے۔جب یہ معلوم ہوگیا کہ یہاں روایتوں کا آپس میں تعارض ہے تو اب اس تعارض کواٹھا نے کی کوئی صورت سوچنی چاہیے۔
امام ابو حنیفہ ؒ نے توصرف ترتیب کےمسئلہ کولیا ہے وہ فرماتے ہیں۔ جماعت خواہ ملے یا نہ۔ ترتیب کوقائم رکھنا ضرری ہے ۔مثلا ً صبح کی نماز اس وقت یاد آئی جب خطبہ سےفارغ ہوکرجمعہ کی نماز پڑھانے لگاتووہ فجر کی نمازپڑھے خواہ جمعہ فوت ہوجائے۔ملاحظہ ہو شامی جلداول باب ادراک الفریضۃ صفحہ 525 وباب قضاء الفوائت صفحہ537 وفتاوی ٰ ابن تیمیہؒ جلداوّل صفحہ 129 لیکن اس صورت میں حدیث «فلاصلوۃ الاّ الّتی اقيمت لها» پرعمل بالکل ترک ہوجاتا ہے اس لئے یہ ٹھیک نہیں۔
جمعہ کےمسئلہ میں امام ابوحنیفہؒ کےشاگرد امام محمد ؒ بھی اپنے استاد کے خلاف ہیں۔وہ کہتے ہیں پہلے جمعہ پڑھے پھر صبح کی نماز پڑھے چنانچہ شامی کےصفحہ مذکورہ میں تصریح کی ہے ۔باقی دوصورتیں اورہیں ۔ہمارے خیال میں یہ دونوں ٹھیک ہیں ان سےجس پرچاہے عمل کرے۔
ایک یہ کہ پہلے وہ نماز پڑھ لے جس کی اقامت ہوئی ہے اس کےبعد وہ نماز پڑھے جوقضاہوگئی۔
یہ ہےکہ حدیث «لاصلوۃ الا الّتی اقيمت لها» سےمعلوم ہوا کہ جب اقامت ہوجائے توترتیب قائم رکھنی ضروری نہیں ہاں اوروقتوں میں ترتیب سےپڑھے اورعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت جوموطا کےحوالہ سے گذری ہے۔وہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کاقول ہےحدیث «فلا صلوۃ الاالتی اقيمت لها » کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔
یہ ہے کہ امام کےساتھ شامل ہوجائے اورقضا نماز کی نیت کرلے اس کے بعد اکیلا دوسری نماز پڑھ لے جس کی اقامت ہوئی ۔رہا فجر کی نماز کونماز ظہر کےساتھ پڑھنا۔ سواس کا ایک طریق تویہی ہےکہ جتنی رکعتیں زائد ہیں۔ ان کی نفل کی نیت کرے مثلا ً فجر ظہر کےساتھ پڑھے تودونفلوں کی نیت کرے اوراگرمغرب عشاء کے ساتھ پڑھے توایک نفل کی نیت کرے ۔اگرچہ ایک نفل وترکے سوا نہیں آیا لیکن جماعت کی خاطر جائز ہے ۔ دیکھیئے تین نفل بھی وترکےسوا نہیں آئے لیکن کوئی شخص مغرب اکیلا پڑھ چکا ہو پھرمغرب کی جماعت پا لے توملنا پڑےگا یا مغرب کی جماعت ہوچکی ۔ اس کےبعد اکیلا آئے تو جوشخص نمازجماعت کےساتھ پڑھ چکا ہے اس کےساتھ شامل ہوسکتا ہے۔ رہی فرض نفل کی اکٹھی نیت تویہ بھی جماعت کی خاطر ہے۔جیسے امام پانچ رکعت پڑھ لے تو امام پرسجدہ سہو پڑگیا۔حدیث میں آتا ہے کہ پانچویں رکعت اورسجدہ سہو مل کر بمزلہ دوکعت کے ہو کر نفل ہوجائیں گے لیکن مقتدی کوبھی سجدہ سہو کرنا پڑتاہے تویہ جماعت کوقائم رکھنے کی خاطرہے ورنہ مقتدی کوکیا ضرورت ہے۔
دوسرا طریق یہ ہے کہ صبح کی نماز ظہر کےساتھ پڑھے تودوپرسلام پھیرکرامام سےالگ ہو جائے اگر مغرب عشاء کے ساتھ پڑھے توتین پڑھ کرالگ ہوجائے جیسے صلوٰۃ خوف میں مقتدی ایک رکعت امام کےساتھ پڑھ کردشمن کےسامنے چلے جاتے ہیں۔اورامام دوسری رکعت دوسرے مقتدیوں کوپڑھادیتا ہے۔گویا یہ سب تغیّر وتبدل جماعت کی خاطر ہے۔ ایسےمسائل میں تشدّد نہیں چاہیئے کیونکہ یہ اختلاف حادث نہیں ۔اوردلائل ملتے جلتے ہیں۔
اختیارات ابن تیمیہ ؒ صفحہ40 میں ہے۔
«اصح الطريقين لاصحاب احمد انه يصح أئتمام القاضی بالمودی ولابالعکس ولايخرج عن ذالک ا ئتمام المفترض بالمتنفل ولواختلفا او کانت صلوۃ الماموم اقل وهو اختيار ابی البرکات وغيرہ»یعنی زیادہ صحیح طریق اصحاب احمد کےنزدیک یہ ہے کہ قضا دینے والااداکرنے والے کی اقتداء کرسکتا ہے۔اورفرض پڑھنے والا نفل پڑھنے والےکی اقتدا کرے یہ بھی اس میں داخل ہے خواہ نمازیں ان کی تعداد رکعت میں کم وبیش ہوں بلکہ مقتدی کی نماز کم ہوتوبھی کوئی حرج نہیں (جیسے امام عشاء پڑھے اورمقتدی اس کے ساتھ مغرب کی نیت کرے ) اورابو البرکات وغیرہ کے نزدیک یہی مختار ہے۔
فتاوی ٰ ابن تیمیہ ؒ جلد اوّل صفحہ 111 میں ہے :
«مسئله فی من وجد جماعة يصلون الظهر فاراد ان يقضی معهم الصبح فلما قام الامام فللرکعة الثالثة فارقه بالسّلام فهل تصح هذہ الصلوۃ وعلی ای مذهب تصح» الجواب:«هذہ الصلوة لاتصح فی مذهب ابی حنيفة ومالک واحمد فی احدی الروايتين عنه وتصح فی مذهب الشافعی وا حمد فی الرواية الاخری »یعنی جوشخص فجر کی نماز ظہر پڑھنےوالے امام کےساتھ پڑھے ۔جب امام تیسری رکعت کے لئے اٹھے یہ سلام پھیر کرالگ ہوجائے یہ نماز صحیح ہوگی یا نہ؟اگر صحیح ہوگی توکس کے نزدیک؟
جواب: اس کایہ ہے کہ امام ابوحنیفہ ؒ اورامام مالک ؒ کےنزدیک صحیح نہیں ۔اورامام احمدؒ سے بھی ایک روایت اس طرح آئی ہے۔اورایک روایت میں امام احمد کےنزدیک یہ نماز صحیح ہوگی۔ اورامام شافعی ؒ مذہب میں بھی یہ نماز صحیح ہے۔
فتاوی ٰ ابن تیمیہ ؒ جلداول صفحہ 115 میں ہے :
«مسئله فی امام قام الی الخامسة فسبّح به فلم يلتفت لقولهم وظن انه لم يسه فهل يقومون معه ام لا۔» الجواب :«ان قاموا معه جاهلين لم يتطل صلوتهم لکن مع العلم لاينبغی لهم ان يتابعوہ بل ينتظروہ حتی يسلم بهم او يسلموا قبله والانتظار احسن والله اعلم۔»امام پانچویں رکعت کےلئے کھڑا ہوکرکسی نے پیچھے سے سبحان اللہ کہا ۔امام نے اس کا خیال نہ کیا کیونکہ اس کےدل میں تھا کہ میں بھولا نہیں۔کیا اس صورت میں مقتدی امام کےساتھ کھڑےہوں یا نہ؟
اس کاجواب یہ ہے کہ اگرمسئلہ کی ناوافقی کی وجہ سےکھڑے ہوجائیں توان کی نماز باطل نہیں ہوگی۔ لیکن دیدہ دانستہ کھڑےہونا لائق نہیں بلکہ انتظار میں بیٹھے رہیں۔جب امام پانچویں رکعت پڑھ لے تواس کے ساتھ سلام پھیریں یا اس سے پہلے جب وہ پا نچویں رکعت کے لئے کھڑا ہوسلام پھیر لیں یعنی سلام پھیر کر امام سے الگ ہوجائیں لیکن امام کی انتظار بہتر ہے۔
وباللہ التوفیق