سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(301) موسیقی کا حکم

  • 7666
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1306

سوال

(301) موسیقی کا حکم
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں نےاخبار‘‘عکاظ’’شمارہ نمبر۶۱۰۱مورخہ۲۹ربیع الثانی۱۴۰۳ہجری میں ایک خبرپڑھی جس کاخلاصہ یہ ہےکہ ایک سعودی گلوکارنےگاناچھوڑدیاتھالیکن قاہرہ وپیرس کےدرمیان جب ایک ہوائی سفرمیں اس کی ملاقات ایک عالم دین سےہوئی اوردونوں نےموسیقی کی شرعی حیثیت کےبارےمیں گفتگوکی تواس عالم دین نےطیارہ سےاترنےسےپہلےپہلےاسےدلائل وبراہین کےساتھ قائل کردیاکہ موسیقی شرعاجائزہےاورسفرسےواپسی پراس گلوکارنےدوبارہ گاناشروع کردیااورچندنئےگانےپیش کئےجواس کی تازہ پیشکش ہیں۔

دلائل وبراہین کےساتھ واضح فرمائیں کیااسلام میں گاناجائزہےخصوصاوہ فحش گانےجوآج کل موسیقی کےساتھ گائےجاتےہیں ان کےبارےمیں کیاحکم ہے؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جمہوراہل علم کےنزدیک گاناحرام ہےاوراگرگانےکےساتھ موسیقی،بانسری اوررباب کابھی استعمال ہوتوپھراس کےحرام ہونےپرتمام مسلمانوں کااجماع ہےاوراس کی حرمت کےدلائل میں ایک دلیل حسب ذیل ارشادباری تعالیٰ ہے:

﴿وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْتَرِ‌ي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيل اللَّـهِ﴾ (لقمان۶/۳۱)

‘‘اورلوگوں میں ایسابدبخت بھی ہےجوبےہودہ حکایتیں خریدتاہےتاکہ (لوگوں کو) اللہ کےراستےسےگمراہ کرے۔’’

جمہورمفسرین نے‘‘لھوالحدیث’’کی تفسیرمیں لکھاہےکہ اس سےمرادگاناہے۔حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ قسم کھاکرفرمایاکرتے تھےکہ اس سےمرادگاناہےنیز وہ فرماتے ہیں کہ گانادل میں اس طرح نفاق پیداکرتا ہے ،جس طرح پانی سےکھیتی پروان چڑھتی ہے۔’’اورصحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایاکہ‘‘میری امت میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوں گے جوزنا،ریشم،شراب اورآلات لہوولعب کے استعمال کو حلال قراردیں گے۔’’اس حدیث کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نےمعلق مگر صحت کے وثوق کے ساتھ بیان کیا ہے اوردیگر ائمہ نے بھی اسے صحیح سندوں کے ساتھ روایت کیا ہے،‘‘معازف’’سے مرادگانااورآلات لہوولعب ہیں اس سے معلوم ہواکہ جس شخص نے گانے کی مشروعیت کا فتوی دیا ہے (بشرطیکہ یہ بات صحیح نقل کی گئی ہو) اس نے علم کے بغیر اللہ تعالی کی طرف ایک بات کو منسوب کیا اورایک ایسا باطل فتوی دیا ہے جس کے بارے میں قیامت کے دن اس سے پوچھاجائے گا۔واللہ المستعان۔  

 

 

مقالات وفتاویٰ ابن باز

صفحہ 394

محدث فتویٰ

تبصرے