کپڑوں کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے کے بارے میں کیا حکم ہے جب کہ وہ تکبر کی وجہ سے ہو یا بغیر تکبر کے ہواوربچےکو جب اس کے گھر والے مجبورکردیں یا عادت ہی اس طرح ہو تواس کا کیا حکم ہے ؟
اس کاحکم یہ ہے کہ مردوں کے لئے کپڑے کوٹخنوں سے نیچے لٹکاناحرام ہے کیونکہ نبی کریمﷺنے فرمایا ہے:
‘‘تہبند کا وہ حصہ جو ٹخنوں سے نیچے ہوگا وہ جہنم میں ہوگا۔’’ (صحیح بخاری) اورصحیح مسلم میں حضرت اابوذررضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا‘‘تین قسم کے آدمی ایسے ہیں جن سے اللہ تعالی روزقیامت نہ کلام فرمائے گا،نہ ان کی طرف (نظر رحمت سے) دیکھے گااورنہ انہیں پاک کرے گااوران کےلئے دردناک عذاب ہوگاوہ تین قسم آدمی یہ ہیں (۱) اپنے تہبند کو ( ٹخنوں سے نیچے) لٹکانے والا (۲) کوئی چیز دے کر احسان جتلانے والااور (۳) جھوٹی قسم کھاکراپناسودابیچنے والا’’
یہ دونوں اوران کے ہم معنی دیگر احادیث عام ہیں اورسب کو شامل ہیں خواہ کوئی ازراہ تکبر اپنا کپڑا لٹکائے یا کسی اورسبب کی وجہ سے ،کیونکہ نبی ﷺنے یہ حکم عام اورمطلق بیان فرمایاہے اوراسے کسی قید کے ساتھ مقید نہیں کیا اوراگرکپڑا زراہ تکبر ٹخنوں سے نیچے لٹکایاہوتوگناہ اوربھی زیادہ اوروعید اوربھی زیادہ شدید ہے کہ نبی ﷺکا ارشادہے ‘‘جو شخص تکبر کی وجہ سے اپنے کپڑے کو ٹخنوں سے نیچے لٹکائے،اللہ تعالی روزقیامت اس کی طر دیکھے گا نہیں ۔’’یہ گمان کرناجائز نہیں کہ رسول اللہ ﷺنے تکبر کی وجہ سے کپڑے کے لٹکانے سے منع کیا ہے کیونکہ نبی ﷺنے اسے مذکورہ بالادونوں احادیث میں کسی بھی قید کے ساتھ مقید نہیں فرمایاجیساکہ ایک اورحدیث میں بھی اسے مقید نہیں کیا اوروہ یہ کہ آپؐ نے بعض صحابہ سے فرمایاکہ‘‘کپڑے کو نیچے لٹکانے سے بچوکیونکہ یہ تکبر ہے ۔’’تواس میں آپﷺنے کپڑے کونیچے لٹکانے ہی کو تکبر قراردیا،کیونکہ اکثر وبیشترتکبر ہی کی وجہ سے ایسا کیا جاتا ہے،جو شخص ازراہ تکبر نہ لٹکائے تواس کا یہ عمل وسیلہ تکبر ہے اوروسائل کا حکم بھی وہی ہوتا ہے جومقاصد کا ہوتا ہے ،پھر اس میں اسراف بھی ہے اورکپڑا نجاست وگندگی سے آلودہ بھی ہوتا ہے ۔حضرت عمررضی اللہ عنہ نے جب ایک نوجوان کو دیکھا جس کا کپڑازمین پر لگ رہا تھا توآپ نے اس سے فرمایا‘‘اپنا کپڑا زمین سے اونچاکرلو،اس سے رب راضی ہوگااورتمہاراکپڑا پاک صاف رہے گا۔’’
نبیﷺنے حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ سے جو یہ فرمایا،جب انہوں نے یہ عرض کیا یا رسول اللہ!میرا تہبندڈھیلاہوکر لٹک جاتاہےلیکن میں اسےاوپررکھنےکی کوشش کرتاہوں،توآپ نےفرمایا‘‘تم ان لوگوں میں سےنہیں ہوجوتکبرکی وجہ سےایساکرتےہیں۔’’توآپ کی اس سےمرادیہ تھی کہ جس شخص کاکپڑاڈھیلاہوکرلٹک جائےاوروہ کوشش کرکےاسےاورپراٹھالےتواس کاشماران لوگوں میں سےنہیں ہوگاجوازراہ تکبراپنےکپڑےنیچےلٹکاتےہیں کیونکہ اس نےاپنےکپڑےکوخودنیچےنہیں لٹکایابلکہ کپڑاخودبخودڈھیلاہوکرلٹک گیااوراس نےاسےاوپراٹھالیاتوبےشک اس طرح کاشخص معذورہے۔
جوشخص جان بوجھ کراپنےکپڑےکوٹخنوں سےنیچےلٹکائےخواہ وہ عباہویاشلوار،قمیص ہویاتہبند،وہ اس وعیدمیں داخل ہےاوروہ اپنےکپڑوں کونیچےلٹکانےکی وجہ سےمعذورنہیں ہےکیونکہ وہ احادیث صحیحہ جوکپڑوں کونیچےلٹکانےسےمنع کرتی ہیں وہ اپنےمنطوق،معنی اورمقاصدکےاعتبارسےعام ہیں لہٰذاہرمسلمان پرواجب ہےکہ وہ اپنےکپڑےکوٹخنوں سےنیچےلٹکانےسےپرہیزکرے،اللہ تعالیٰ سےڈرےاورکپڑےکوٹخنوں سےنیچےنہ ہونےدےتاکہ ان احادیث پرعمل کرکےاللہ تعالیٰ کےغضب وعقاب سےمحفوظ رہ سکے۔والله ولي التوفيق_