سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(286) جانور ذبح کرنے کی نذر

  • 7651
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1121

سوال

(286) جانور ذبح کرنے کی نذر
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں نے ماضی میں ایک دفعہ امتحان سے پہلے یہ نذر مانی تھی کہ اگر میں چھٹی جماعت میں پاس ہوگیا توایک جانورذبح کروں گا،میں پہلے مرحلہ میں تو کامیاب نہیں ہوسکا البتہ دوسرے مرحلہ میں کامیاب ہوگیا توکیا اس صورت میں مجھے جانورذبح کرنا پڑے گا؟اس واقعہ کو چار سال گزر گئے ہیں اورمیں ابھی تک اپنی نذر پوری نہیں کرسکا،اسی طرح میں نے یہ بھی نذر مانی تھی کہ اگرمیں آٹھویں جماعت میں کامیاب ہوگیا تو۔۔۔۔۔کیا یہ جائز ہوگا کہ میں ایک جانورذبح کردوں یا مجھے دوجانورذبح کرنے چاہئیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگرآپ نے نذر مطلقامانی ہے اورپہلے مرحلہ میں کامیابی کی شرط نہیں لگائی تھی توآپ کو چاہئے کہ نذر پوری کریں اوراللہ تعالی کی رضا کے لئے ایک جانورذبح کرکے اسے فقراءمیں تقسیم کردیں اوراس سے آپ یا آپ کے اہل خانہ کچھ نہ کھائیں کیونکہ

نبی کریمﷺنے فرمایا ہے کہ ‘‘جو شخص اللہ تعالی کی اطاعت کی نذر مانے ،اسے اللہ تعالی کی اطاعت کرنی چاہئے اورجواللہ تعالی کی نافرمانی کی نذر مانے اسے اللہ تعالی کی نافرمانی نہیں کرنی چاہئے۔’’اس حدیث کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح میں بروایت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہابیان فرمایاہے۔

اگرآپ کا مقصد پہلے مرحلہ میں کامیابی تھا اورآپ اس کی بجائے دوسرے مرحلہ میں کامیاب ہوئے تواس صورت میں آپ پر نذر کو پوراکرنا لازم نہیں ہے کیونکہ

نبی کریمﷺکا ارشادہے کہ‘‘اعمال کا انحصار نیتوں پر ہے اورہر آدمی کے لئے وہی کچھ ہے جس کی ا س نے نیت کی ’’

 (متفق علیہ،بروایت حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ)

اسی طرح جب آپ نے آٹھویں جماعت میں کامیابی کے لئے نذر مانی تواسے بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی مذکورہ حدیث کے پیش نظر پوراکرنا ہوگااوراگرآپ نے پہلی یا دوسری نذر کے موقعہ پر یہ نیت کی تھی کہ جانور ذبح کرکے اپنے اہل خانہ ،رشتہ داروں اورپڑوسیوں کو کھلائیں گے توحضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی مذکورہ حدیث کے پیش نظر اپنی نیت کے مطابق عمل کریں۔

برادرم!آپ کو چاہئے کہ آئندہ نذر نہ مانیں کیونکہ یہ اللہ تعالی کی تقدیر میں سے کسی بھی چیز کو واپس نہیں لوٹاسکتی اورنہ یہ کامیابی کے اسباب میں سے ہے ۔نبی کریمﷺنے نذر سے منع کیا اور فرمایاہے کہ نذر کسی خیروبھلائی کو نہیں لاسکتی ہاں البتہ اس کے ذریعہ بخیل سے ضرورکچھ مال نکالاجاسکتا ہے ،جیسا کہ صحیحین میں حضرت ابن عمربن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث سے ثابت ہے۔ہم اپنے لئے اورآپ کے لئے اللہ تعالی سے ہدایت وتوفیق کی دعامانگتے ہیں۔

 

 

مقالات وفتاویٰ ابن باز

صفحہ 381

محدث فتویٰ

تبصرے