ہمارے گھرمیں کئی غیرمسلم خادمائیں ہیں۔کیا میرے لئے ان سے پردہ کرنا بھی واجب ہے ؟کیا وہ میرے نماز والےکپرڑے دھوسکتی ہیں؟کیا میرے لئے جائز ہے کہ ان کے دین کے عیوب نقائص بیان کروں اوان کے سامنے واضح کروں کہ ان کے دین اورہمارے دین حنیف میں کیا نمایاں فرق ہے؟
علماءکےصحیح قول کے مطابق ان سے پردہ کرنا واجب نہیں ہے کیونکہ وہ دیگر تمام عورتوں ہی کی طرح ہیں اوران کے کپڑوں اوربرتنوں کے دھونے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے لیکن یہ ضرورواجب ہے کہ اگروہ مسلمان نہ ہوں توان سے معاہدہ ختم کردیا جائےکیونکہ اس جزیرۃ العرب میں صرف اسلام ہی باقی رہ سکتا ہے اوراس ملک میں صرف مسلمانوں ہی کوبلانا چاہئے خواہ وہ عمال ہوں یا خادم ،خواہ مردہوں یا عورتیں،کیونکہ نبی کریمﷺنے وصیت فرمائی تھی کہ مشرکوں کو اس جزیرہ سے نکال دیا جائے اوراس میں دودین نہ ہوں کیوں کہ یہ اسلام کا مرکز اورمطلع آفتاب رسالت ہے لہذا اس میں دین حق یعنی اسلام کے سوا اورکوئی دین باقی نہیں رہ سکتا۔اللہ تعالی مسلمانوں کو حق کی اتباع اوراس پر استقامت کی توفیق بخشےاورغیر مسلموں کو دیگر تمام ادیان ترک کرکے دین اسلام میں داخل ہونے کی توفیق عطافرمائے۔
آپ کو چاہئے کہ انہیں اسلام کی دعوت دیں،ان کے سامنے اسلام کے محاسن کو بیان کریں،ان کے دین میں جو نقص اورحق کی مخالفت ہے اسے واضح کریں اوربتائیں کہ اسلامی شریعت سابقہ تمام شریعتوں کی ناسخ ہے اوراسلام ہی وہ دین حق ہے جس کے ساتھ اللہ تعالی نے تمام رسولوں کو مبعوث فرمایااورتمام کتابوں کو نازل فرمایا،
ارشادباری تعالی ہے:
﴿إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللَّـهِ الْإِسْلَامُ﴾ (آل عمران۳/۱۹)
‘‘دین تو اللہ کے نزدیک اسلام ہے۔’’
نیزفرمایا:
﴿وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ﴾ (آل عمران۳/۸۵)
‘‘اورجو شخص اسلام کے سوا کسی اوردین کا طالب ہوگا، وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گااورایسا شخص آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔’’
لیکن یاد رہے آپ اسلام کے بارے میں جو بات بھی کریں،علم وبصیرت کی بنیاد پر کریں کیونکہ علم کے بغیر اللہ تعالی اوراس کے دین کے بارے میں بات کرنا منکر عظیم ہے جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایاہے:
(قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَن تُشْرِكُوا بِاللَّـهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَأَن تَقُولُوا عَلَى اللَّـهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ) (الاعراف۷/۳۳)
‘‘ (اےپیغمبر!) کہہ دیجئےکہ میرے رب نے تو بےحیائی کی باتوں کو (چاہے) ظاہر ہوں یا پوشیدہ اورگناہ کو اورناحق زیادتی کرنے کو حرام ٹھہرایا ہےاور اس کو بھی (حرام ٹھہرایا ہے) کہ تم کسی کو اللہ کا شریک بناو جس کی اس نے کوئی سند نازل نہیں کی اور اس کو بھی (حرام ٹھہرایا ہے) کہ اللہ کے بارے میں ایسی باتیں کہو جن کا تمہیں کچھ علم نہیں۔’’
اس آیت میں اللہ تعالی کے بارے میں علم کے بغیر بات کرنے کو دیگر تمام مراتب سےبڑامرتبہ اوربڑی بات قراردیاگیا ہے اوریہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس کی حرمت زیادہ اوراس کے نتیجہ میں مرتب ہونے والے خطرات بہت سنگین ہیں۔
اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا ہے:
﴿قُلْ هَـٰذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّـهِ ۚ عَلَىٰ بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي ۖ وَسُبْحَانَ اللَّـهِ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ﴾ (یوسف۱۲/۱۰۸)
‘‘اےپیغمبر! کہہ دیجئے میراراستہ تویہ ہے ،میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں (ازروئےیقین وبرہان) سمجھ بوجھ کر میں بھی (لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتا ہوں ) اورمیرے پیروبھی اوراللہ پاک ہے اورمیں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔’’
سورہ بقرہ میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالی کے بارے میں علم کے بغیر بات کرنا ان امورمیں سے ہے ،جن کاشیطان حکم دیتا ہے،چنانچہ ارشادباری تعالی ہے:
﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ ﴿١٦٨﴾ إِنَّمَا يَأْمُرُكُم بِالسُّوءِ وَالْفَحْشَاءِ وَأَن تَقُولُوا عَلَى اللَّـهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ﴾ (البقرۃ۲/۱۶۸۔۱۶۹)
‘‘لوگوجوچیزیں زمین میں حلال طیب ہیں وہ کھاؤاورشیطان کےقدموں پرنہ چلووہ تمہاراکھلادشمن ہے،وہ توتمہیں برائی اوربےحیائی ہی کےکام کرنےکاکہتاہےاوریہ بھی کہ اللہ کی نسبت ایسی باتیں کہوجن کاتمہیں (کچھ بھی) علم نہیں۔’’
اللہ تعالی سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمیں اورآپ کو ہدایت ،نیت کی درستی اورعلم کی توفیق عطافرمائے۔