اللہ تعالی نےقرآن مجید میں ارشادفرمایاہے:
﴿وَإِنِ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِن بَعْلِهَا نُشُوزًا أَوْ إِعْرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَن يُصْلِحَا بَيْنَهُمَا صُلْحًا ۚ وَالصُّلْحُ خَيْرٌ﴾ (النساء۴/۱۲۸)
‘‘اوراگرکسی عورت کو اپنے خاوند کی طرف سے زیادتی یا بے رغبتی کا اندیشہ ہو تو میاں بیوی پر کچھ گناہ نہیں کہ آپس میں کسی قراردادپر صلح کرلیں اورصلح بہت بہتر
(خوب چیز) ہے۔’’
سوال یہ ہے کہ کیا زیادتی یا بے رغبتی بیوی کی طرف سے بھی ہوسکتی ہے جن اسباب کی وجہ سے خاوند ،بیوی سےبے رغبتی کرتا ہے اگراسی قسم کے اسباب کی وجہ سے بیوی اپنے خاوند سے بے رغبتی کرے تواس کا کیا حکم ہے؟ایسے اسباب بھی ہوسکتے ہیں ،جن کی وجہ سے بیوی ،اپنے خاوند سے بےرغبتی کرے تواس کا حکم بھی اللہ تعالی نے اپنی کتا ب عظیم میں بیان فرمایاہے،چنانچہ سورہ انساء میں ارشاد ہے:
﴿وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ ۖ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا ۗ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا﴾ (النساء۴/۳۴)
‘‘اورجن عورتوں کی نسبت تمہیں معلوم ہوکہ سرکشی (اوربدخوئی) کرنے لگی ہیں تو (پہلے) ان کو (زبانی) سمجھاو (اگرنہ سمجھیں تو) پھران کے ساتھ سونا ترک کردو، (یعنی ان کے بستر،اپنے سے الگ کردو) اگراس پر بھی باز نہ آئیں توزدوکوب کرواوراگرفرماں بردارہوجائیں توپھر ان کو ایذاءدینے کا کوئی بہانہ مت ڈھونڈو،بےشک اللہ تعالی سب سے اعلی (اور) جلیل القدرہے۔’’