سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(262) پردہ اور بے حجابی

  • 7627
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 3128

سوال

(262) پردہ اور بے حجابی
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

پردہ اور بے حجابی


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

پردہ اور بے حجابی

الحمدلله وحده،والصلوة والسلام علي من لانبي بعده،وعلي آله وصحبه _ امابعد:

ہروہ انسان جس میں ادنی سی بھی معرفت ہو،جانتا ہے کہ بہت سے ممالک میں عورتوں کے اظہارحسن وجمال،مردوں سے عدم حجاب اورنمائش زینت ۔۔۔جسے اللہ تعالی نے حرام قراردیا ہے۔۔۔کے باعث ہی مصیبتیں عام ہوئی ہیں۔بلاشک وشبہ عورتوں کی بے پردگی عظیم منکرات،ظاہرمعاصی اوراللہ تعالی کی طرف سے نازل ہونے والی عقوبتوں اورمصیبتوں کے اسباب میں سے بڑاسبب ہے کیونکہ فواحش منکرات کا ظہور،جرائم کا ارتکاب ،قلت حیا اورعموم فساوغیرہ اظہارحسن وجمال اورعدم حجاب ہی کےبرگ وبارہیں۔

مسلمانو!اللہ سے ڈرو اپنے بے وقوف لوگوں کو روکواورعورتوں کو منع کرو کہ وہ ان امورکے ارتکاب سے بازآجائیں ،جنہیں اللہ تعالی نے حرام قراردیا ہے۔ان سے پردہ کی پابندی کراواوراللہ کے غضب اوراس کی عظیم سزاوں سےڈراو۔نبیﷺکا ارشادگرامی ہے:

 ( (ان الناس اذا راواالمنكرفلم يغيروه اوشك ان يعمهم الله بعقابه) )

‘‘جب لوگ برائیوں کا ارتکاب ہوتا دیکھیں اورمنع نہ کریں توقریب ہے کہ اللہ تعالی سب کو اپنے عذاب کی گرفت میں لےلے۔’’

اللہ تعالی نے بھی قرآن مجید میں فرمایاہے:

﴿لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا مِن بَنِي إِسْرَ‌ائِيلَ عَلَىٰ لِسَانِ دَاوُودَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْ‌يَمَ ۚ ذَٰلِكَ بِمَا عَصَوا وَّكَانُوا يَعْتَدُونَ ﴿٧٨﴾ كَانُوا لَا يَتَنَاهَوْنَ عَن مُّنكَرٍ‌ فَعَلُوهُ ۚ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ﴾ (المائدۃ۵/۷۸۔۷۹)

‘‘جو لوگ بنی اسرائیل میں کافر ہوئے،ان پر داودؑاورعیسیؑ ابن مریم کی زبان سے لعنت کی گئی ۔یہ اس لئے کہ وہ نافرمانی کرتے اورحد سے تجاوز کرتے تھے (اور) برے کاموں سے ،جو وہ کرتے تھے ایک دوسرے کو روکتے نہیں تھے بلاشبہ وہ براکرتے تھے۔’’

حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب نبی ﷺنے اس آیت کریمہ کی تلاوت کی توفرمایا:

 ( (والذي نفسي بيده لتامرن بالمعروف’ولتنهون عن المنكر’ولتاخذن علي يدالسفيه ولتاطرنه علي الحق اطرااوليضربن الله بقلوب بعضكم علي بعض’ثم يلعنكم كما لعنهم) )

‘‘اس ذات اقدس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جا ن ہے تم ضرورنیکی کا حکم دوگے،برائی سے روکوگے،بےوقوف کے ہاتھ کو پکڑلوگے (کہ وہ دست دارزی نہ کرے) اوراسے حق کی طرف لوٹادوگےیا پھر تمہارے بعض لوگوں کے باعث تمہارے دیگر لوگوں کے دلوں کو اللہ تعالی مردہ کردے گااورتم پر ایسے لعنت کرے گاجیسے اس نے اسرئیلیوں (بنی اسرائیل) پر لعنت کی تھی۔’’

صحیح سند کے ساتھ نبیﷺکا یہ ارشادبھی مروی ہے:

 ( (من راي منكم منكرا فليغيره بيده’فان لم يستطع فبلسانه’فان لم يستطع فبقلبه’وذلك اضعف الايمان) )

‘‘تم میں سے جو کوئی برائی کا کام دیکھے ،اسے ہاتھ سے روک دے،اگر (اس کی ) طاقت نہ رکھتا ہوتوزبان سے منع کرے،اتنی بھی استطاعت نہ ہو تو دل سے براسمجھے اوریہ نہایت کمزوردرجے کا ایمان ہے۔’’

اللہ تعالی نے اپنی کتاب کریم میں عورتوں کو حکم دیا ہے کہ وہ پردہ کی پابندی کریں،گھروں کو اختیار کریں اورفتنہ وفسادسے محفوظ رہنے کے لئے غیر محرم آدمیوں کے سامنے حسن وجمال کا اظہار کریں نہ نرم لب ولہجہ میں بات کریں ارشادربانی ہے:

﴿يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاءِ ۚ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَ‌ضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُ‌وفًا ﴿٣٢﴾ وَقَرْ‌نَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّ‌جْنَ تَبَرُّ‌جَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ ۖ وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّـهَ وَرَ‌سُولَهُ﴾ (الاحزاب۳۳/۳۲۔۳۳)

‘‘اے پیغمبرکی بیویو!تم دوسری عورتوں کی طرح نہیں ہو،اگرتم پرہیز گاررہنا چاہتی ہو تو (کسی اجنبی شخص سے) نرم نرم باتیں نہ کروتاکہ وہ شخص جس کے دل میں کوئی مرض ہے کوئی امید (نہ) پیداکرلے اوردستورکے مطابق بات کیا کرواوراپنے گھروں میں ٹھہری رہواورجس طرح پہلے جاہلیت (کے دنوں ) میں اظہار تجمل کرتی تھیں ،اس طرح زینت نہ دکھاواورنماز پڑھتی رہو اورزکوۃ ادیتی رہو ،اللہ اوراس کے رسول کی فرماں برداری کرتی رہو۔’’

ان آیات میں اللہ تعالی نے نبی کریمﷺکی ازواج مطہرات کوجوامہات المومنین ہیں اوردنیا کی تمام عورتوں سے بہتر اوراطہر ہیں ،منع فرمایا ہے کہ وہ بھی دوسرے مردوں کے سامنے نرم لب ولہجہ میں گفتگونہ کریں تاکہ جس کے دل میں شہوت زنا کا مرض ہے،وہ طمع نہ کرنے لگ جائےاوریہ خیال نہ کرنے لگ جائے کہ وہ بھی اس کی ہم خیا ل ہیں نیز اللہ تعالی نے گھروں میں رہنے کا حکم دیا اورزمانہ جاہلیت کے ‘‘تبرج’’سے منع فرمایاہے۔‘‘تبرج’’کے معنی ہیں زینت اورمحاسن ،سر،چہرہ ،گردن ،سینہ،بازوں اورپنڈلیوں کا اظہار کیونکہ اس سے عظیم فسا اوربڑے بڑے فتنے رونما ہونے کا اندیشہ ہے اوریہ اظہار حسن وجمال ہی تو مردوں کے دلوں میں زنا کی تحریک پیدا کرنے کا بہت بڑا سبب ہے۔

قابل غوربات یہ ہے کہ جب اللہ تعالی نے نیکی وتقوی اورایمان وطہارت کے باوصف (باوجود) امہات المومنین کو ان منکر اشیاء سے منع فرمادیا ہے تودیگر عورتوں کو تو بالاولی ان سے باز رہنا چاہئے اورانہیں اسباب فتنہ سےزیادہ ڈرناچاہئے۔اللہ تعالی ہمیں اورآپ سب کو گمراہ کن فتنوں سے محفوظ رکھے۔

اس آیت میں مذکورہ احکام صرف ازواج مطہرات ہی کے لئے مخصوص نہیں بلکہ یہ سب مسلمان عورتوں کے لئےہیں،عموم پر دلالت کے لئے آیت کا درج ذیل حصہ ملاحظہ فرمائیے:

﴿وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّـهَ وَرَ‌سُولَهُ﴾ (الاحزاب۳۳/۳۳)

‘‘اورنماز پڑھتی رہو اورزکوۃ ادیتی رہو ،اللہ اوراس کے رسول کی فرماں برداری کرتی رہو۔’’

اوریہ سب اوامر،ازواج مطہرات اوردیگر عورتوں کے لئے احکام کی حیثیت رکھتے ہیں۔اس کےبعدارشادباری تعالی ہے:

﴿وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِن وَرَ‌اءِ حِجَابٍ ۚ ذَٰلِكُمْ أَطْهَرُ‌ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ﴾ (الاحزاب۵۳/۳۳)

‘‘اورجب پیغمبروں کی بیویوں سےکوئی سامان مانگوتوپردےکےپیچھےسےمانگویہ تمہارےاوران (دونوں) کےدلوں کےلئےبہت پاکیزگی کی بات ہے۔’’

یہ آیت کریمہ واضح نص ہےکہ عورتوں کےلئےمردوں سےپردہ اورسترفرض ہےاوراللہ تعالیٰ نےپردےکی فرضیت میں مضمرحکمت کوبھی بیان فرمادیاہےکہ یہ عورتوں اورمردوں کےدلوں کےلئےپاگیزگی کاباعث ہےنیزبرائی اوراس کےاسباب سےدورکرنےوالاہےگویااس بات کی طرف بھی اللہ سبحانہ وتعالیٰ نےاشارہ فرمادیاہےکہ عدم حجاب خباثت اورحجاب طہارت اورسلامتی ہے۔

مسلمانو!اللہ تعالیٰ کےسکھائےہوئےآداب اختیارکرو،اس کےحکم کےسامنےسراطاعت خم کردواورعورتوں سےپردےکی پابندی کراؤکیونکہ پردہ طہارت کاسبب اورسلامتی کاوسیلہ ہے۔اللہ تعالیٰ نےارشادفرمایاہے:

﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن يُعْرَ‌فْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ اللَّـهُ غَفُورً‌ا رَّ‌حِيمًا﴾ (الاحزاب۵۹/۳۳)

‘‘اےنبی!اپنی بیویوں،بیٹیوں اورمسلمانوں کی عورتوں سےکہہ دیجئےکہ (باہرنکلاکریں تو) اپنے (چہروں) پرچادرلٹکا (کرگھونگٹ نکال) لیاکریں یہ امران کےلئےموجب شناخت (وامتیاز) ہوگاتوکوئی ان کوایذاءنہ دےگااوراللہ بخشنےوالامہربان ہے۔’’

جلابیب،جلباب کی جمع ہے۔جلباب اس کپڑےکوکہتےہیں جسےعورت حجاب اورسترپوشی کےلئےاپنےسرپراوڑھتی ہے،چنانچہ اللہ تعالیٰ نےسب مومن عورتوں کوحکم دیاہےکہ وہ اپنےچہرےاوربالوں یعنی مقامات حسن کواوڑہنیوں سےچھپاکررکھیں تاکہ معلوم ہوکہ یہ عفت مآب ہیں اورخودفتنہ میں مبتلاہوں نہ دوسروں کےلئےفتنہ سامانی کاباعث بنیں۔علی بن ابی طلحہ،حضرت ابن عباسؓ سےروایت کرتےہیں کہ اللہ تعالیٰ نےمسلمان عورتوں کوحکم دیاہےکہ جب وہ کسی ضرورت کےباعث گھروں سےنکلیں تواوڑہنیوں کےساتھ اپنےسروں کےاوپرسےچہروں کوڈھانپ لیاکریں اوردیکھنےکےلئےصرف آنکھ ظاہرکرلیاکریں۔امام محمدبن سیرین روایت کرتےہیں کہ میں نےعبیدہ سلمانی سےپوچھاکہ اللہ تعالیٰ کےفرمان:

﴿ُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ﴾ (الاحزاب۵۹/۳۳)

‘‘اپنے (چہروں) پرچادرلٹکا (کرگھونگھٹ نکال) لیاکریں۔’’

کی تفسیرکیاہے؟توانہوں نےاپنےچہرےاورسرکوڈھانپ لیااوربائیں آنکھ کوظاہرکرلیا۔

ان احکام کےبیان کرنےکےبعداللہ تعالیٰ نےفرمایاہےکہ اس نہی اورممانعت سےقبل اس باب میں جوتفصیرہوئی ہو،اسےاللہ تعالیٰ معاف کردےگاکیونکہ وہ غفوررحیم ہے،پھرارشادہے:

﴿وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَاءِ اللَّاتِي لَا يَرْ‌جُونَ نِكَاحًا فَلَيْسَ عَلَيْهِنَّ جُنَاحٌ أَن يَضَعْنَ ثِيَابَهُنَّ غَيْرَ‌ مُتَبَرِّ‌جَاتٍ بِزِينَةٍ ۖ وَأَن يَسْتَعْفِفْنَ خَيْرٌ‌ لَّهُنَّ ۗ وَاللَّـهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ﴾ (النور۶۰/۲۴)

‘‘اوربڑی عمرکی عورتیں جن کونکاح کی توقع نہیں رہی اوروہ کپڑےاتار (کرسرننگاکر) لیاکریں توان پرکچھ گناہ نہیں بشرطیکہ وہ اپنی زیبت کی چیزیں ظاہرنہ کریں اوراگراس سےبچیں تویہ ان کےحق میں بہترہےاوراللہ سننےاورجاننےوالاہے۔’’

یعنی اللہ تعالیٰ فرماتاہےکہ وہ بوڑھی عورتیں جنہیں اب نکاح کی امیدنہیں،اگراپنےچہروں اورہاتھوں کوبرہنہ کرلیں توان پرکوئی گناہ نہیںبشرطیکہ اظہارحسن وجمال مقصودنہ ہو،اس سےمعلوم ہواکہ اظہارزینت کےلئےچہرےاورہاتھوں کوننگاکرنےوالی گناہ گارہےخواہ وہ بوڑھی ہی کیوں نہ ہو،اس لئےکہ ہرگری پڑی چیزکوکوئی ضروراٹھالیتاہےاوراس لئےبھی کہ اس سےاس کےفتنہ میں مبتلاہوبےکاشدیداندیشہ ہے۔جب بوڑھی عورتوں کی یہ کیفیت ہےتوجوان اورخوبصورت عورتوں کےاظہارحسن وجمال سےتویقیناعظیم المیہ،شدیدگناہ اوربت بڑافتنہ رونماہوگا۔بوڑھی عورتوں کوپردہ کی رخصت دیتےوقت اللہ تعالیٰ نےایک شرط یہ بھی عائدکی ہےکہ وہ نکاح کی امیدوارنہ ہوں،اگروہ امیدوارہوں گی تویقینااظہارحسن وجمال کواپنائیں گی لہٰذااللہ تعالیٰ نےانہیں رخصت نہیں دی۔آیت شریفہ کےخاتمہ پراللہ تعالیٰ نےبوڑھی عورتوں کوبچنےکی وصیت کی ہےاورفرمایاہےکہ یہ ان کےلئےبہترہے۔اس سےمعلوم ہواکہ حجاب اورسترپوشی کس قدرافضل عمل ہےاوراگربوڑھی عورتیں بھی اسےاپنائیں تواس کی فضیلت میں فرق نہیں آتا،جوان عورتوں کےلئےتواس سےبہتراورفتنہ کےاسباب سےدوررکھنےوالی کوئی چیزنہیں ہے۔

پردہ کےسلسلہ میں درج ذیل ارشادات ربانی بھی قابل ذکرہیں:

﴿قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِ‌هِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُ‌وجَهُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَزْكَىٰ لَهُمْ ۗ إِنَّ اللَّـهَ خَبِيرٌ‌ بِمَا يَصْنَعُونَ ﴿٣٠﴾ وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِ‌هِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُ‌وجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ‌ مِنْهَا ۖ وَلْيَضْرِ‌بْنَ بِخُمُرِ‌هِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ ۖ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ‌ أُولِي الْإِرْ‌بَةِ مِنَ الرِّ‌جَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُ‌وا عَلَىٰ عَوْرَ‌اتِ النِّسَاءِ ۖ وَلَا يَضْرِ‌بْنَ بِأَرْ‌جُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ ۚ وَتُوبُوا إِلَى اللَّـهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴾ (النور۳۰/۲۴۔۳۱)

‘‘اےپیغمبر!مومن مردوں سےکہہ دوکہ اپنی نظریں نیچی رکھاکریں اوراپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیاکریں،یہ ان کےلئےبڑی پاکیزگی کی بات ہےاورجوکام یہ لوگ کرتےہیں،اللہ ان سےخبردارہےاورمومن عورتوں سےبھی کہہ دوکہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھاکریں اوراپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیاکریں اوراپنی آرائش (یعنی زیورکےمقامات) ظاہرنہ ہونےدیاکریں مگرجواس میں سےکھلارہتاہواوراپنےسینےپراپنی اوڑھنیاں اوڑھےرہاکریں اوراپنےخاوند،باپ،خسر،خاوندکےبیٹوں،بھائیوں،بھتیجوں اوربھانجوں اوراپنی (ہی قسم کی) عورتوں،لونڈیوں اورغلاموں کےسوانیزان خدام کےجوعورتوں کی خواہش نہ رکھیں یاایسےلڑکوں سےجوعورتوں کےپردہ کی چیزوں سےواقف نہ ہوں (غرض ان لوگوں کےسوا) کسی پراپنی زینت اور (سنگھارکےمقامات) کوظاہرنہ ہونےدیں اوراپنےپاؤں (ایسےطورسےزمین پر) نہ ماریں کہ (جھنکارکی آوازکانوں میں پہنچےاور) ان کاپوشیدہ زیورمعلوم ہوجائےاوراےاہل ایمان!سب اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کروتاکہ تم فلاح پاجاؤ۔’’

ان دومبارک آیتوں میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نےمومن مردوں اورمومن عورتوں کونگاہیں نیچی رکھنےاورشرم گاہوں کی ھفاظت کرنےکاحکم دیاہے،اس لئےکہ زناکی برائی بہت خطرناک اوراس سےپیداہونےوالافسادبہت اندوہٹاک ہے۔نظرکواٹھانادل کےمرض اوربرائی کےوقوع کی علامت ہےجب کہ اسےجھکاناسلامتی کی دلیل ہےلہٰذااللہ تعالیٰ نےفرمایاہےکہ‘‘مومن مردوں سےکہہ دوکہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھاکریں اوراپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیاکریں۔یہ ان کےلئےبڑی پاکیزگی کی بات ہےاورجوکام یہ کرتےہیں،یقینااللہ تعالیٰ ان سےخبردارہے۔’’

نظریں نیچی رکھنااورشرم گاہوں کی ھفاظت کرنامومنوں کےلئےدنیاوآخرت میں پاکیزگی کاباعث ہوگااوربصروفرج کوکھلاچھوڑدینادنیاوآخرت میں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کابہت بڑاسبب ہے۔

پھراللہ تعالیٰ نےہمیں یہ بگھی خبردی کہ وہ لوگوں کےافعال سےباخبرہےاوراس سےکچھ بھی مخفی نہیں،اس میں بھی گویاتخدیرکاپہلونمایاں ہےاوروہ اس طرح کہ مسلمانوں کواللہ تعالیٰ کےحرام کردہ امورکاامورکاارتکاب کرتےوقت اوراس کےاحکام سےاعراض کرتےوقت ہمیشہ یہ بات پیش نظررکھنی چاہئےکہ اچھےبرےسب اعمال پراللہ تعالیٰ کی نظرہےاوروہ انہیں بخوبی جانتاہے،جیساکہ اس کافرمان ہے:

﴿يَعْلَمُ خَائِنَةَ الْأَعْيُنِ وَمَا تُخْفِي الصُّدُورُ‌﴾ (غافر۱۹/۴۰)

‘‘وہ خیانت کرنےوالی آنکھ اورسینوں کی پوشیدہ باتوں کوجانتاہے۔’’

نیزفرمایا:

﴿وَمَا تَكُونُ فِي شَأْنٍ وَمَا تَتْلُو مِنْهُ مِن قُرْ‌آنٍ وَلَا تَعْمَلُونَ مِنْ عَمَلٍ إِلَّا كُنَّا عَلَيْكُمْ شُهُودًا إِذْ تُفِيضُونَ فِيهِ﴾ (یونس۱۰/۶۱)

‘‘اورآپ جس حال میں ہوں، قرآن کی تلاوت کررہے ہوں یا کوئی بھی عمل کررہےہوں،توتم جو کام بھی کرتے ہو ہم بھی موجود ہوتے ہیں جب تم اس کام کو کرنا شروع کرتے ہو’’

لہذاہر آدمی پر واجب ہے کہ وہ اللہ تعالی سے ڈرے اوراس بات سے حیا محسوس کرے کہ اللہ تعالی اسے کوئی معصیت کاکام کرتے ہوئے دیکھے یا واجب الاطاعت امورمیں کوئی کمی بیشی دیکھے ۔مومن مردوں کے بعد اللہ تعالی نے مومن عوتوں کو یہ حکم دیا ہے

﴿وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِ‌هِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُ‌وجَهُنَّ﴾ (النور۲۴/۳۱)

‘‘اورمومن عورتوں سےبھی کہہ دوکہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھاکریں اوراپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔’’

غض بصر (نگاہ نیچی رکھنا) اورحفظ فرج (عصمت وعفت) کا یہ حکم اس لئے دیا تاکہ اسباب فتنہ سے محفوظ رہیں نیز اس طرح عفت مآبی وسلامتی کی راہ کی طرف توجہ مبذول کرانا مقصود ہے۔پھر فرمایا:

﴿وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ‌ مِنْهَا﴾ (النور۲۴/۳۱)

‘‘اوراپنی آرائش کوظاہرنہ ہونےدیں مگرجواس میں سےکھلارہتاہے’’

حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ‘‘مَا ظَهَرَ‌ مِنْهَا’’سے ظاہری لباس وغیرہ مراد ہے یعنی آپؐ کا مقصد یہ ہے کہ زیب تن کیا ہوا لباس اگرظاہر ہو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں بشرطیکہ لباس حسین وجمیل اورفتنہ کا باعث نہ ہو۔حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے جو‘‘ومَا ظَهَرَ‌ مِنْهَا’’کی تفسیر میں منقول ہے اس سے چہرہ اورہاتھ مراد ہیں تواس تفسیرکوآیت حجاب کے نزول سے قبل کی حالت پر محمول کیا جائے گاکیونکہ بعدمیں تو اللہ تعالی نے تمام جسم کی ستر پوشی کا حکم دے دیا جیسا کہ سورۃ الاحزاب کی مذکورہ آیت سے ثابت ہے اوراس پر وہ روایت بھی دلالت کرتی ہے جسے علی بن ابی طلحہ نے بیان کیا ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے مسلمانو ں کی عورتوں کو حکم دیا ہے کہ وہ جب کسی ضرورت کے باعث اپنے گھروں سے باہر نکلا کریں تواپنے سروں اورچہروں کو اوڑھنیوں سے چھپا لیا کریں’’شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اورکئی اہل علم ودانش نے بھی اسی بات کی نشاندہی فرمائی ہے اوربلاشک وشبہ حق بات بھی یہی ہے کیونکہ ساری فتنہ سامانی ہی چہروں اورہاتھوں کے حسن وجمال کی بدولت ہے ۔اللہ تعالی کا یہ ارشادقبل ازیں ذکر ہوچکا ہےکہ:

﴿وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِن وَرَ‌اءِ حِجَابٍ﴾ (الاحزاب۵۳/۳۳)

‘‘اورجب پیغمبروں کی بیویوں سےکوئی سامان مانگوتوپردےکےپیچھےسےمانگو۔’’

اس آیت شریفہ میں قطعا کوئی استثناء نہیں۔یہ محکم ہے اوراس پر عمل کرنا واجب ہے۔اس مسئلہ میں ازواج مطہرات اورمسلمانوں کی عورتیں سب برابر ہیں۔سورہ نورکی مذکورہ آیات سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ کیونکہ ان آیات میں اللہ تعالی نے بوڑھی عورتوں کو ناامیدی نکاح اورعدم تبرج کی دو شرطوں کے ساتھ حجاب سے مستثنی قراردیا ہے جیسا کہ تفصیل کے ساتھ قبل ازیں ذکر کیا جاچکا ہے ۔یہ مذکورہ آیت حجت ظاہرہ اوربرہان قاطع ہے کہ عورتوں کے لئے بے پردگی اوراظہار زیب وزینت حرام ہے ۔قصہ افک والی حدیث میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نےجب حضرت صفوان بن معطل سلمی رضی اللہ عنہ کی آواز سنی توفورااپنے چہرے کو ڈھانپ لیا۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ ‘‘وہ (حضرت صفوان رضی اللہ عنہ) انہیں (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو) پردے کی آیت نازل ہونے سے پہلے پہچانتے تھے’’تویہ چیز اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حکم حجاب کے نزول کے بعد عورتیں اپنے چہروں کے پردے کی وجہ سے نہیں پہچانی جاسکتی تھیں۔

آج عورتیں جس قدر دیدہ دلیری کے ساتھ حسن وجمال اورمحاسن کا اظہار کرتی ہیں،یہ کسی سے بھی مخفی نہیں لہذا واجب ہے کہ ان تمام ذرائع اوروسائل کو ختم کردیا جائے،جو فتنہ وفساداورفواحش ومنکرات کو جنم دیتے ہیں۔سب سے بڑا سبب مردوں اورعورتوں کی خلوت گزینی اورعورتوں کا بغیر محرم کے سفر کرنا ہے حالانکہ حضرت محمد ﷺکا ارشادگرامی ہے :

 ( (لا تسافر امراة الامع ذي محرم ’ولايخلون رجل بامراة الاومعهاذومحرم) )

‘‘کوئی عورت محرم کے بغیر سفر نہ کرے اورنہ کوئی آدمی عورت کے ساتھ اس کے محرم کے بغیر خلوت اختیارکرے۔’’

دوسراارشادہے:

 ( (لايخلون رجل بامراة الاكان الشيطان ثالثهما) )

‘‘جب بھی کوئی آدمی کسی عورت کے ساتھ خلوت اختیار کرتا ہے توتیسراشیطان ہوتا ہے (جو انہیں گمراہ کرتاہے) ’’

تیسراارشادگرامی ہے :

 ( (لايبيتن رجل عندامراة الاان يكون زوجااوذامحرم) )

‘‘کوئی مرد کسی عورت کے پاس رات بسر نہ کرے الا یہ کہ وہ (مرد اس عورت کا) شوہر یا محرم ہو۔’’

مسلمانو!اللہ تعالی سے ڈرو اوراپنی عورتوں کو سمجھاواورانہیں بے حجابی ،اظہار حسن وجمال اورعیسائیوں وغیرہ ،اللہ تعالی کے دشمنوں کی مشابہت سے روکو اوریاد رکھو کہ یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے خاموش رہنا ان کے گناہ میں مشارکت اوراللہ تعالی کے غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہے ،اللہ تعالی ہمیں اورتمہیں اس شر (برائی) سے محفوظ رکھے۔

ایک بہت بڑا فریضہ یہ بھی ہے کہ آدمیوں کو عورتوں کے ساتھ خلوت اختیار کرنے،تنہائی میں ان کے پاس جانے اورمحرم کے بغیر ان کے ساتھ سفر اختیار کرنے سے روکا جائے کیونکہ یہ سب امور فتنہ وفساد برپا کرنے والے ہیں،آنحضرتﷺکاصحیح فرمان (حدیث) ہے:

 ( (ماتركت بعدي فتنة اضر علي الرجال من النساء) )

‘‘میرے بعد مردوں کے لئے عورتوں سے زیادہ ضرررساں فتنہ کوئی نہ ہوگا۔’’

نیز فرمایا:

 ( (ان الدنيا حلوة خضرة’وان الله مستخلفكم فيها’فناظر كيف تعملون’فاتقوا الدنيا واتقوا النسآء’فان اول فتنة بني اسرآئيل كانت في النسآء) )

‘‘دینا شیریں اورسرسبزوشاداب ہے ،اللہ اس میں تمہیں یکے بعد دیگرے بھیجنے والا ہے اوروہ دیکھنا چاہتا ہے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو،دنیا سے بچ جاواورعورتوں سے بچ جاوکیونکہ بنی اسرائیل میں رونماہونے والا پہلا فتنہ بھی عوتوں کا ہی تھا۔’’

یہ بھی نبی علیہ السلام کا فرمان ہے:

 ( (رب كاسية في الدنيا عارية في الاخرة) )

‘‘دنیا میں بہت سی لباس پہننے والی آخرت میں عریاں ہوں گی۔’’

آپﷺکا یہ ارشادگرامی بھی قابل غور ہے:

 ( (صنفان من اهل النار لم ارهما بعد: نسآء كاسيات عاريات مائلات مميلات رووسهن كاسنمة البخت المآئلة’لايدخلن الجنة ولا جدن ريحها’ورجال بايديهم سياط كاذناب البقر يضربون بها الناس) )

‘‘جہنم والوں کے دوگروہ ایسے ہیں جنہیں میں نے ابھی تک نہیں دیکھا ایک تووہ عورتیں جولباس پہنے ہوئےہیں لیکن درحقیقت وہ عریاں ہیں۔خود مائل ہونے والی اوردوسروں کو مائل (اپنی طرف) کرنے والی ہیں،ان کےسر بختی اونٹوں کی کوہانوں جیسے ہیں،یہ جنت میں داخل ہوسکیں گی نہ جنت کی خوشبوپاسکیں گی۔اوردوسراگروہ ان آدمیوں کا ہے جن کے ہاتھوں میں گائے کی دموں جیسے کوڑے ہوں گے جن کے ساتھ وہ لوگوں کو ماریں گے۔’’

اس ارشادنبویﷺمیں اظہار حسن وجمال ،بے پردگی باریک اورچھوٹے کپڑے پہننے،حق اورعفت سے اعراض اورلوگوں کو باطل کی طرف مائل کرنے والی عورتوں کے لئے شدید ترین وعید ہے نیز لوگوں پر ظلم وزیادتی کرنے والوں کو بھی یہ وعید سنائی گئی ہے کہ وہ جنت سے محروم رہیں گے۔ ( (نسال الله العافية من ذلك) )

ایک عظیم ترین فتنہ یہ ہے کہ آج بہت سی مسلمان عورتیں چھوٹے چھوٹے کپڑے پہننے،بالوں اورمحاسن کے ننگاکرنے ،کفاروفساق کی عورتوں کی طرح بالوں کے سٹائل بنانے اورمصنوعی بالوں کی وگیں وغیرہ لگانے میں عیسائی اوران جیسی دوسری کافر عورتوں کی مشابہت کرنے لگی ہیں،حالانکہ حضورسرورکائناتﷺکا ارشادگرامی ہے

 ( (من تشبه بقوم فهومنهم) )

‘‘جس شخص نے کسی قوم کے ساتھ مشابہت اختیار کی وہ انہیں میں سے ہے۔’’

اورہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ نیم عریاں قسم کے لباس پہننے کی مشابہت اختیار کرنے کی وجہ سے کس قدر فتنہ وفساد برپاہورہا ہے اوردین وحیا میں کمی پیدا ہورہی ہے لہذا اس سے اجتناب انتہائی ضروری ہے اورعورتوں کو نہایت سختی سے منع کرنا عین فرض ہے ورنہ یہ فتنہ وفساد نہایت شدت اختیار کرجائے گااوراس کا انجام انتہائی تباہ کن ثابت ہوگا۔ان مسائل میں چھوٹی بچیوں کے ساتھ بھی تساہل روانہیں رکھنا چاہئے کیونکہ بچپن میں جس انداز کی تربیت ہوگی بڑی ہوکر وہ انہیں عادات کو اپنائیں گی لہذا اے بندگان الہی!اللہ سے ڈرو،اللہ تعالی نے جن اشیاء کو حرام قراردیا ہے ،ان سے اجتناب کرو،نیکی اورتقوی کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرواورحق وصبر کی وصیت کرواوریاد رکھو ان امورکے سلسلہ میں اللہ تم سے یقینا باز پرس کرے گااوراعمال کے مطابق جزاوسزادےگااوروہ ہمیشہ صابر،متقی اورمحسن لوگوں کا ساتھ دیتا ہے لہذا صبرکرو،دوسروں کو بھی صبر کی تلقین کرواوراللہ سے ڈر جاو۔

بلاشک وشبہ یہ فریضہ دوسروں کی نسبت حکام،امراء،قضاۃ اوربڑے بڑے اداروں کے سربراہوں پر زیادہ عائد ہوتا ہے کیونکہ ان حضرات کے سکوت کی وجہ سے یہ فتنہ عظیم سے عظیم ترہوجائے گالیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اس فتنہ کا سدباب صرف انہی پر فرض ہے بلکہ یہ توتمام مسلمانوں پر فرض ہے خصوصا عورتوں کے اس فتنہ کو کچل دینا چاہئے اورذرہ بھر تساہل نہیں کرنا چاہئے کچھ بعید نہیں کہ اللہ تعالی اس بلا کو ختم کرکے ہمیں اورہماری عورتوں کو سیدھے راستے کی ہدایت دے دے ۔نبی ﷺنے فرمایاتھا:

 ( (مابعث الله من نبي الا كان له من امته حوايون واصحاب ياخذون سنته ويهتدون بامره’ثم انها تخلف من بعدهم خلوف يقولون مالا يفعلون’ويفعلون مالا يومرون’فمن جاهدهم بيده فهو مومن’ومن جاهدهم بلسانه فهو مومن’ومن جاهدهم بقلبه فهو مومن’وليس ورآءذلك من الايمان حبة خردل) )

‘‘اللہ تعالی نے جس قد ربھی نبی بھیجے ہیں ہر ایک کی امت میں سے اس کے حواری اورکچھ ایسے ساتھی ضروررہے ہیں جو اس کی سنت کو پکڑتے اوراس کے حکم پر عمل کرتے تھے پھر ان کے بعد ایسے لوگ آجاتے جو وہ کہتے ،خود نہ کرتے اوروہ (ایسے کام) کرتے جن کا انہیں حکم نہیں دیا جاتا تھا،جوان سے ہاتھ سے جہاد کرے وہ مومن ہے اورجوان سے زبان سے جہاد کرے وہ بھی مومن ہے اورجو ان سے دل کے ساتھ جہاد کرے وہ بھی مومن ہے اوراس کے بعد رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہیں رہتا۔’’

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ اپنے دین کی مدد فرمائے ،اپنے کلمہ کو سربلند کرے،ہمارے حکام کی اصلاح فرمائے اورتوفیق دے کہ وہ حق کی حمایت کریں اورفتنہ وفساد کا قلع قمع کردیں۔اللہ تعالی ہمیں ،تمہیں ،ان سب کو اورسب مسلمانوں کو توفیق دے کہ ہم وہ کام کریں جس میں ہماری اورہمارے ممالک کی دنیوی اوراخروی فلاح وبہبود ہو،اللہ تعالی ہر چیز پر قادرہے اوردعاوں کا سننے والا بھی وہی ہے۔

و حَسْبُنَا اللَّـهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ’ولا حول ولا قوة الابالله العلي العظيم’ وصلي الله وسلم وبارك علي عبده ورسوله محمد واآله وصحبه ومن تبعهم باحسان الي يوم الدين

 

 

مقالات وفتاویٰ ابن باز

صفحہ 350

محدث فتویٰ

تبصرے