سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(254) تحریم وطلاق کی قسم

  • 7619
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1450

سوال

(254) تحریم وطلاق کی قسم
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

تحریم وطلاق کی قسم کھالینے کا کیا حکم ہ ے؟اوراس شخص کے بارے میں کیا حکم ہے جس کی یہ عادت بن چکی ہو؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 کسی حلال چیز کو حرام قراردینے کے لئے قسم کھانا جائز نہیں ہے خواہ یہ کہے کہ ‘‘بالحرام ام لافعلن كذا’’یایہ کہےکہ ‘‘علی الحرام ام لافعلن كذا’’یایہ کہےکہ ‘‘لاافعل كذا’’کیونکہ ارشادباری تعالی ہے:

﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّ‌مُ مَا أَحَلَّ اللَّـهُ لَكَ﴾ (التحریم۶۶/۱)

‘‘اے نبی!جوچیز اللہ نے تمہارے لئے حلال کی ہے تم اسے کیوں حرام کرتے ہو؟’’

اوراپنی بیویوں سے ظہارکرنے والوں کی بابت اللہ تعالی نے فرمایا:

﴿وَإِنَّهُمْ لَيَقُولُونَ مُنكَرً‌ا مِّنَ الْقَوْلِ وَزُورً‌ا﴾ (المجادلۃ۵۸/۲)

‘‘بے شک وہ نامعقول اورجھوٹی بات کہتے ہیں۔’’

نبی کریمﷺنے غیر اللہ کی قسم کھانے سے منع کرتے ہوئے فرمایاکہ جس شخص نے غیر اللہ کی قسم کھائی تحقیق اس نے شرک کیا ،بلاشک وشبہ انسان کا یہ کہنا کہ

‘‘بالحرام لافعلن كذا’’بھی غیر اللہ کی قسم کھانے ہی کی ایک صورت ہے !

اس یہ قسم کھانا کہعلی الطلاق لافعلن كذا یایہ کہنا کہ ‘‘ان فعلت کذا فانت طالق’’ (اگرتونے ایسا کیا توتجھےطلاق) مکروہ ہے کیونکہ یہ طلاق تک پہنچادینے کا سبب بن سکتا ہے اورکسی شرعی سبب کے بغیر طلاق دینا حلال چیزوں میں سے اللہ تعالی کے نزدیک سب سے زیادہ نہ پسندیدہ ہے اوراگرکوئی یوں کہے ‘‘بالطلاق لافعلن کذا’’یایہ کہے کہ‘‘لاافعل كذا’’تویہ ایک امر منکر ہے کیونکہ غیراللہ کی قسم جائز نہیں ہے۔واللہ ولی التوفیق۔

 

 

مقالات وفتاویٰ ابن باز

صفحہ 343

محدث فتویٰ

تبصرے