ایک شخص فوت ہوا اوراس کے وارثوں میں باپ ،ایک بیٹی ،ایک حقیقی بھائی،دوباپ کی طرف سے بھائی اورایک حقیقی بہن ہے،وارثوں میں اس کی وراثت کس طرح تقسیم ہوگی؟
سارے ترکہ کے دو حصے کرلئے جائیں گے ،ان میں سے ایک حصہ بیٹی کو فرض ہونے کی وجہ سے اوردوسراباپ کو فرض وعصبہ کی بنیاد پر دیا جائے گا،بھائیوں کو کچھ نہیں ملے گا کیونکہ علماء کا اجماع ہے کہ باپ کی موجودگی میں بھائی وراثت سے محروم رہتے ہیں ۔اگرمیت کے ذمے قرض ہو تواسے وارثوں میں تقسیم سے قبل ترکہ سے اداکیا جائے گااورقرض کے بعد بچنے والے ترکہ کو مذکورہ تقسیم کے مطابق وارثوں میں تقسیم کیا جائے گا،اسی طرح میت کی طرف سے اگر کوئی ثابت شدہ شرعی وصیت ہو رتو اسے بھی تقسیم سے قبل پورا کرنا ہوگا،جب کہ وصیت کل ترکہ کے ایک تہائی یا اس سے بھی کم سے متعلق ہو کیونکہ میت کوایک تہائی سے زیادہ وصیت کرنے کا اختیار نہیں ہے اوراگرکوئی اس سے زیادہ وصیت کرے تو ایک تہائی سے زیادہ پر عمل نہ ہوگا الا یہ کہ مکلف ومرشدوارثوں کی رضامندی ہواوراس بات کی دلیل کہ وارثوں میں ترکہ کی تقسیم سے پہلے قرض اداکیا اوروصیت پر عمل کیا جائے،حسب ذیل ارشادباری تعالی ہے:
﴿يُوصِيكُمُ اللَّـهُ فِي أَوْلَادِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ ۚ فَإِن كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ ۖ وَإِن كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ ۚ وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِن كَانَ لَهُ وَلَدٌ ۚ فَإِن لَّمْ يَكُن لَّهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ ۚ فَإِن كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ ۚ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ﴾ (النساء۴/۱۱)
‘‘اللہ تعالی تمہاری اولاد کے بارے میں تم کو ارشاد فرماتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دولڑکیوں کے حصے کے برابر ہے ۔۔۔۔ (اوریہ تقسیم ترکہ میت کی ) وصیت
(کی تعمیل) کے بعد جو اس نے کی ہو یا قرض کے اداہونے کے بعد جو اس کے ذمہ ہو عمل میں آئے گی۔’’