رشوت اوراس کےنقصانات
عبدالعزیزبن عبداللہ بن بازکی طرف سےاپنےمسلمان بھائیوں میں سےہراس شخص کےنام جواسےدیکھےیاسنے،اللہ تعالیٰ مجھےاورانہیں صراط مستقیم پرچلنےکی توفیق عطافرمائےاورمجھےاورانہیں عذاب جہنم سےبچائے!
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته امابعد:
جن چیزوں کواللہ تعالیٰ نےحرام قراردیااورنہایت سختی کےساتھ حرام قراردیا،ان میں سےایک رشوت بھی ہے،رشوت یہ ہےکہ اپنی کسی ایسی مصلحت کےپوراکرنےکےلئےکسی ایسےذمہ دارشخص کی مذمت میں مال پیش کرناجس پراس مال کےبغیراسےپوراکرناواجب تھااوراگررشوت دینےسےمقصوداپنےحق کاحصول نہہو،بلکہ اس سےمقصودکسی حق کاابطال یاکسی باطل کااحقاق یاکسی پرظلم کرناہوتوپھراس کی حرمت اوربھی زیادہ ہوجاتی ہے۔
ابن عابدین (شامی) رحمۃ اللہ علیہ نےاپنے‘‘حاشیہ’’میں لکھا ہےکہ رشوت وہ ہے جسے ایک شخص کسی حاکم وغیرہ کوا س لئے دیتا ہے تاکہ وہ اس کے حق میں فیصلہ کردےیا اسے وہ ذمہ داری دے دے جسے وہ چاہتا ہے،انہوں نے اس تعریف کے ساتھ یہ واضح کیا ہے کہ رشوت عام ہے خواہ مال ہو یا کسی اورطرح کی منفعت اور‘‘حاکم’’سے مراد (جج) ہے اور‘‘وغیرہ ’’سےمراد وہ شخص جس کے ہاں رشوت دینے والے کی مصلحت پوری ہوسکتی ہو خواہ اس کا تعلق حکمرانوں سے ہو یا سرکاری ملازمین سے یا خاص اعمال بجالانے والے ذمہ داروں سے مثلا تاجروں ،کمپنیوں اورجاگیرداروں وغیرہ کے نمائندے وغیرہ ‘‘فیصلہ’’سے مراد یہ ہے کہ رشوت لینے والا رشوت دینے والے کی مرضی کے مطابق فیصلہ کردے تاکہ رشوت دینے والے کا مقصد پوراہوجائے خواہ وہ حق پرہو یا باطل پر۔
برادران اسلام!رشوت ان کبیرہ گناہوں میں سے ہے جنہیں اللہ تعالی نے اپنے بندوں پر حرام قراردیا ہےاوررسول اللہ ﷺنے اس پر لعنت فرمائی ہےلہذا واجب ہے کہ اس خود بھی اجتناب کیا جائے اورلوگوں کو بھی اس سے اجتناب کی تلقین کی جائے کیونکہ یہ فساد عظیم ،گناہ کبیرہ اوربھیانک نتائج کا سبب بنتی ہے ،یہ گناہ اورظلم کی ان باتوں سے ہے،جن پر تعاون کرنے سے اللہ تعالی نے منع فرمایا ہے:
﴿وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ﴾ (المائدۃ۲/۵)
‘‘اور (ديكهو) نیکی اور پرہیز گاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو۔’’
الله تعالی نے باطل طریقے سے لوگوں کے مال کھانے سے منع فرمایاہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ﴾ (النساء۴/۲۹)
‘‘اے ایمان والو!ایک دوسرے کا مال نا حق نہ کھاو ہاں اگر باھم رضامند ی سے تجارت کا لین دین ہو (اوراس سے مالی فائدہ ہوجائے تووہ جائز ہے ۔) ’’
اورفرمایا:
﴿وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِّنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ﴾ (البقرہ۲/۱۸۸)
‘‘اورایک دوسرے کا مال نا حق نہ کھاواورنہ اس کو (رشوت کے طورپر) حاکموں کے پاس پہنچاوتاکہ لوگوں کے مال کا کچھ حصہ ناجائز طورپرکھاجاواور (اسے) تم جانتے بھی ہو۔’’
رشوت،باطل طریقے سے مال کھانے کی صورتوں میں سے انتہائی بدترین صورت ہے کیونکہ اس میں دوسرے انسان کو مال اس لئے دیا جاتا ہے تاکہ اسے حق سے منحرف کردیا جائے۔رشوت دینا ،لینا اوردرمیان میں معاملہ کروانا سب حرام ہےاورنبی ﷺنے فرمایا ہےکہ‘‘رشوت لینے والے،دینے والے اوردونوں کے درمیان واسطہ بننے والے پر اللہ تعالی کی لعنت ہے۔’’ (احمد ،طبرانی)
اللہ تعالی کی طرف سے لعنت کے معنی اس کے فیضان رحمت سے دھنکارنے اوردورکردینے کے ہیں۔۔۔نعوذباللہ من ذلک۔۔۔اوریہ سزاکسی کبیرہ گناہ ہی کی ہوسکتی ہے ،رشوت کا تعلق ان حرام کاموں سے ہے جن کی حرمت کا قرآن میں بھی ذکر ہے اورسنت میں بھی اورحرام کھانے کی وجہ سے اللہ تعالی نے یہودیوں کی مذمت کی اوراسےان کی بہت بڑی برائی قراردیا ہے،چنانچہ فرمایا:
﴿سَمَّاعُونَ لِلْكَذِبِ أَكَّالُونَ لِلسُّحْتِ﴾ (المائدہ۵/۴۲)
‘‘ (یہ) جھوٹی باتیں بنانے کے لئے جاسوسی کرنے والے اور (رشوت کا) حرام مال کھانے والے ہیں۔’’
اورفرمایا:
﴿وَتَرَىٰ كَثِيرًا مِّنْهُمْ يُسَارِعُونَ فِي الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَأَكْلِهِمُ السُّحْتَ ۚ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ﴾ (المائدہ۵/۶۲)
‘‘اورتم دیکھوگے کہ ان میں سے اکثر گناہ،زیادتی اورحرام کھانے میں جلدی کررہے ہیں بےشک یہ جو کچھ کرتے ہیں براکرتے ہیں۔’’
نیزفرمایا:
﴿لَوْلَا يَنْهَاهُمُ الرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ عَن قَوْلِهِمُ الْإِثْمَ وَأَكْلِهِمُ السُّحْتَ ۚ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَصْنَعُونَ﴾ (المائدہ۶۳/۵)
‘‘بھلا ان کے مشائخ اور علماء انہیں گناہ کی باتوں اور حرام کھانے سے منع کیوں نہیں کرتے؟بلاشبہ وہ بھی برا کرتے ہیں۔’’
مزید فرمایا:
﴿فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِينَ هَادُوا حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ طَيِّبَاتٍ أُحِلَّتْ لَهُمْ وَبِصَدِّهِمْ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ كَثِيرًا ﴿١٦٠﴾ وَأَخْذِهِمُ الرِّبَا وَقَدْ نُهُوا عَنْهُ وَأَكْلِهِمْ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ﴾ (النساء۴/۱۶۰۔۱۶۱)
‘‘توہم نے یہودیوں کے ظلموں کے سبب (بہت سی) پاکیزہ چیزیں جو ان کے لئے حلال تھیں ،حرام کردیں اوراس سبب سے بھی کہ وہ اکثر اللہ کے رستے سے (لوگوں کو) روکتے تھے اوراس سبب سے بھی کہ باوجود منع کئے جانے کے سودلیتے تھے اوراس سبب سے بھی کہ لوگوں کا مال ناحق کھاتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔’’
بہت سی احادیث مبارکہ میں اس حرام چیز سے اجتناب کرنے کی تلقین کی گئی ہے اوراس کا ارتکاب کرنے والوں کے بھیانک انجام کو بھی بیان کیا گیا ہے مثلا ابن جریرؒ نے ابن عمررضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث بیان کی ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایا:‘‘جو گوشت مال حرام سے پیدا ہوا ہو ،جہنم کی آگ ہی اس کے لئے زیادہ مستحق ہے’’عرض کیا گیا ‘‘مال حرام سے کیا مراد ہے ؟’’توآپﷺنے فرمایا‘‘فیصلہ کرنے کے لئے رشوت قبول کرنا ۔’’امام احمد نے حضرت عمروبن عاص رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث روایت کی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺکو یہ ارشادفرماتے ہوئے سنا کہ ‘‘جس قوم میں سود عام ہوجائے تو وہ قحط سالی میں مبتلا ہوجاتی ہےاورجس قوم میں رشوت عام ہوجائے ،اس پر دشمن کا رعب طاری ہوجاتا ہے۔’’طبرانی نے ابن مسعود کا یہ قول ذکر کیا ہے کہ ‘‘حرام یہ ہے کہ قرض کے لئے رشوت طلب کی جائے’’ابو محمد الدین ابن قدامہ نے ‘‘المغنی’’میں لکھا ہے کہ حسن اورسعید بن جبیرنےأَكَّالُونَ لِلسُّحْتِکی تفسیر میں فرمایا ہے کہ اس سے مراد رشوت ہے ،ابن قدامہ نے مزید لکھا ہے کہ قاضی اگررشوت قبول کرے تو رشوت اسے کفر تک پہنچادیتی ہے کیونکہ وہ گویا اللہ تعالی کے نازل کردہ حکم کے بغیر کسی اورحکم کے مطابق فیصلہ کرنے کے لئے تیار ہے اورجوشخص اللہ تعالی کے نازل کردہ حکم کے بغیر فیصلہ کرے تووہ کافر ہے۔
امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےمروی یہ حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایاکہ‘‘بے شک اللہ تعالی پاک ہے اوروہ پاک ہی کو قبول کرتا ہے’’اوراللہ تعالی نے مومنوں کو بھی وہی حکم دیا ہےجواس نے اپنےرسولوں کودیا تھا:
﴿يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا﴾ (المومنون۲۳/۵۱)
‘‘اے پیغمبرو!پاکیزہ چیزیں کھاواورعمل نیک کرو۔’’
اور (مومنوں کو حکم دیتے ہوئے ) فرمایا:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ﴾ (البقرۃ۲/۱۷۲)
‘‘اےاہل ایمان جو پاکیزہ چیزیں ہم تم کو عطافرمائی ہیں،ان کو کھاو۔’’
پھر آپؐ نے ایک آدمی کا ذکر کیا جو بہت لمباسفرکرتا ہے،پراگندہ حال اورغبارآلودہے،اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر دعاکرتا ہے یارب!یارب!لیکن اس کاکھانا حرام ہے ،اس پیناحرام ہے،اس کا لباس حرام ہے،حرام مال ہی سے اس کی پرورش ہوئی تواس آدمی کی دعاکیسے قبول ہو؟
اے مسلمانو!اللہ سے ڈرو،اس کی نارضگی سے بچو،اس کے غضب کے اسباب سے اجتناب کروکہ جب اللہ تعالی کے حرام کردہ امور کا ارتکاب کیا جائے تووہ بہت غیور ہے اورصحیح حدیث میں ہے کہ ‘‘اللہ تعالی سے بڑھ کرکوئی اورزیادہ غیرت والا نہیں’’لہذا تم اپنےآپ کو اوراپنے اہل وعیال کو مال حرام اوراکل حرام سے بچاو،اپنے آپ کو اوراپنےاپنے اہل وعیال کو جہنم کی آگ سے بچاو،جو اس گوشت کی زیادہ مستحق ہے جو حرام سےپیدا ہوا ہے۔حرام کھانا دعاکی قبولیت میں حجاب بن جاتا ہے جیساکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے جو صحیح مسلم کے حوالہ سے ذکر کی گئی ہے نیز طبرانی میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے
رسول اللہ ﷺکے پاس اس آیت کی تلاوت کی :
﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا﴾ (البقرۃ۲/۱۶۸)
‘‘لوگوجوچیزیں زمین میں حلال طیب ہیں،وہ کھاؤ۔’’
توسعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ‘‘یارسوا اللہ!دعافرمائیے کہ اللہ تعالی مجھے مستجاب الدعاءبنادے۔’’تونبی کریمﷺنے فرمایا‘‘اے سعد!اپنا کھانا پاک کرلومستجاب الدعوۃبن جاو گے،اس ذات گرامی کی قسم!محمد (ﷺ) کی جان جس کے ہاتھ میں ہے کہ بندہ جب ایک حرام لقمہ اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے تو چالیس دن تک اس کا کوئی عمل قبول نہیں ہوتا اورجس بندے کا گوشت مال حرام سے پلا بڑھا ہو،جہنم کی آگ ہی اس کے زیادہ مستحق ہے۔’’
اس حدیث کو حا فظ ابن رجب رحمۃ اللہ علیہ نے‘‘جامع العلوم والحکم’’میں امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالہ سے ذکر فرمایا ہے،اس سے معلوم ہوا کہ کھانے کا پاک نہ ہونا اوررزق کا حلال نہ ہونا قبولیت دعامیں مانع ہے اوردعا کے دربارالہی تک پہنچنے میں حجاب ہے اورحرام کھانے والے کے لئے کہ کس قدروبال اورخسارے کا سوداہے ۔
نعوذباللہ من ذلک۔
اللہ تعالی نے ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ اپنےآپ کو اوراپنے اہل وعیال کو جہنم کی آگ سے بچاو یعنی جہنم کی آگ ،اللہ تعالی کے عذاب اوردیگر دردناک سزاوں سے خود بھی نجات حاصل کرواورپنے اہل وعیال کوبھی اس سے نجات دلاو:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُونَ اللَّـهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ﴾ (التحریم۶۶/۶)
‘‘اے اہل ایمان!اپنےآپ کو اوراپنے اہل وعیال کو (آتش) جہنم سے بچاوجس کا ایندھن آدمی اورپتھر ہیں اورجس پر سخت دل اورسخت مزاج فرشتے (مقرر) ہیں اللہ تعالی انہیں جو حکم دیتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتےاوروہ جو حکم دئیے جاتے ہیں بجالاتے ہیں۔’’
مسلمانو!اپنے رب کے اس فرمان پر لبیک کہو،اس کے امر کی اطاعت بجالاو،اس کی نہی سے اجتناب کرواوراس کےغضب کے اسباب سے بچو،دنیا وآخرت میں شادکام ہو جاوگے،ارشادباری تعالی ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّـهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ ۖ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ ﴿٢٤﴾ وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَّا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنكُمْ خَاصَّةً ۖ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ﴾ (الانفال۸/۲۴۔۲۵)
‘‘مومنو!اللہ اوراس کےرسول کا حکم قبول کروجب کہ رسول اللہ (ﷺ) تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی (جاوداں) بخشتا ہے اورجان رکھو کہ اللہ تعالی،آدمی اوراس کے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے اوریہ بھی کہ تم سب اس کے روبروجمع کئے جاوگےاوراس فنتے سے ڈرو جو خصوصیت کے ساتھ انہی لوگوں پر واقع نہ ہوگاجوتم میں گناہ گارہیں اورجان رکھو کہ اللہ تعالی سخت عذاب دینے والا ہے۔’’
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اورآپ کو ان لوگوں میں سے بنادے جو بات سنتے ہیں تو اچھی بات کی پیروی کرتے ہیں ،جو نیکی وتقوی کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہیں،کتاب اللہ اورسنت رسول اللہ ﷺکے دامن کو مضبوطی سے تھام لیتے ہیں۔اللہ تعالی ہمیں اورآپ کو اپنے نفسوں کی شرارتوں اوربرے عملوں سے بچائے،اپنے دین کی مددفرمائے،اپنے کلمہ کوسربلندی نصیب کرے اورہمارے حکمرانوں کو ہر اس بت کی توفیق بخشے جس میں بندوں اورشہروں کی بھلائی اوربہتری ہو،بےشک وہی کارسازوقادرہے ۔والسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ