سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(222) ہم غیر اسلامی ملک میں پڑھاتے ہیں اوراس کے بینکوں میں اپنی رقوم۔۔۔۔۔

  • 7587
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1568

سوال

(222) ہم غیر اسلامی ملک میں پڑھاتے ہیں اوراس کے بینکوں میں اپنی رقوم۔۔۔۔۔
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہم ایک غیر اسلامی ملک میں رہ رہے ہیں لیکن اللہ تعالی نے ہمیں مال ودولت اس فراوانی سے عطا فرمایا ہے کہ ہم اس کی حفاظت کے لئے اسے امریکی بینکوں میں رکھنے پر مجبور ہیں،ہم مسلمان ہیں اسی لئے ہم سے بینکوں والے بہت خوش ہیں اوروہ ہمیں بیوقوف سمجھتے ہیں کیونکہ ہم سودی رقوم کو ان بینکوں میں چھوڑ دیتے ہیں تووہ مسلمانوں کے اس مال کو عیسائیت کی تبلیغ واشاعت کے لئے استعمال کرتے ہیں۔میرا سوال یہ ہے کہ کیا ہم ان اموال سے استفادہ نہیں کرسکتے ؟کیا ہم اسے فقیر مسلمانوں پر یا مسجدوں اوراسلامی مدارس کی تعمیر پر خرچ کردیں ؟کیا مسلمان ،بینک سے اس سودی رقم کے لینے پر گناہ گارہوگا خواہ وہ اسے اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والے مجاہدین ہی کو بطورعطیہ کیوں نہ دے دے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سودی بینکوں میں اپنے اموال کو رکھنا جائز نہیں خواہ یہ بینک مسلمانوں کے ،ہوں یا غیر مسلموں کے کیونکہ اس میں گناہ اورظلم کی کاموں میں تعاون ہے خواہ آپ سود نہ بھی لیں پھر بھی سودی بینکوں میں رقوم رکھنا جائز نہیں ہے لیکن اگرکوئی شخص حفاظت کے لئے بینکوں میں رقوم رکھنے پر مجبور ہوجائے اوروہ سود نہ لے توامید ہے کہ

ان شاء اللہ اس میں کوئی حرج نہیں ہوگاارشادباری تعالی ہے:

﴿وَقَدْ فَصَّلَ لَكُم مَّا حَرَّ‌مَ عَلَيْكُمْ إِلَّا مَا اضْطُرِ‌رْ‌تُمْ إِلَيْهِ﴾ (الانعام۶/۱۱۹)                

‘‘جو چیزیں ہم نے تمہارے لئے حرام ٹھہرادی ہیں وہ ایک ایک کرکے بیان دی ہیں مگر اس صورت میں کہ ان کے (کھانے کے ) لئےناچارہوجاہ۔’’

اگرکوئی شخص سود لینے کے لئے ان بینکوں میں اپنی رقوم رکھے تو پھر یہ بہت بڑا گناہ ہے کیونکہ سود اکبر الکبائر میں سے ہے ،اللہ تعالی نے اسے اپنی کتاب کریم میں اوراپنے رسول امینﷺکی زبانی حرام قراردیا ہے اوربتایا ہے کہ سود بلآخر نابود ہوجانے والا ہےاورجوشخص سودی لین دین کرتا ہے اس نے گویا اللہ اوراس کے رسول ﷺکے خلاف اعلان جنگ کردیا ہے۔جن لوگوں کو اللہ تعالی نے مال ودولت کی فراوانی سے نوازاہو،انہیں چاہئے کہ وہ اسے نیکی اوراحسان کے کاموں اورمجاہدین کی مددکے لئے خرچ کریں،اللہ تعالی انہیں اجروثواب عطافرمائے گااورخرچ کئے جانے والے مال کا نعم البدل بھی عطاکرے گا۔جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی کا ارشاد گرامی ہے:

﴿الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُم بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ‌ سِرًّ‌ا وَعَلَانِيَةً فَلَهُمْ أَجْرُ‌هُمْ عِندَ رَ‌بِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ﴾ (البقرۃ۲/۲۷۴)

‘‘جو لوگ اپنا مال رات ،دن اورپوشیدہ وظاہر (اللہ کی راہ میں) خرچ کرتے رہتے ہیں ان کا صلہ پروردگارکے پاس ہے اوران کو (قیامت کے دن) نہ کسی طرح کا خوف ہوگا اورنہ غم۔’’

اورفرمایا:

﴿وَمَا أَنفَقْتُم مِّن شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ ۖ وَهُوَ خَيْرُ‌ الرَّ‌ازِقِينَ﴾ (سبا۳۴/۳۹)

‘‘اورتم جو چیز خرچ کرو گےوہ اس کا (تمہیں ) عوض دے گا،وہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے ۔’’

یہ حکم عام ہے جوزکوۃ و غیر زکوۃ سب کو شامل ہے اورصحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایاکہ‘‘صدقہ سے مال کم نہیں ہوتا ،معاف کردینے سے اللہ تعالی بندے کی عزت میں اضافہ ہی فرماتا ہے اورجو شخص اللہ تعالی کے لئےتواضع اختیار کرے تو اللہ تعالی اسے سربلند فرمادیتا ہے ۔یہ بھی صحیح حدیث میں ہے رسول اللہ ﷺنے فرمایاکہ‘‘ہر روز صبح کے وقت اللہ تعالی دوفرشتوں کو نازل فرماتا ہے ،جن میں سے ایک یہ کہتا ہے کہ اے اللہ خرچ کرنے والے کو نعم البدل عطافرمااورمال روک رکھنے والے کے مال کو تباہ برباد کردے’’

نیکی کے کاموں میں خرچ کرنے اورضرورت مندوں پر صدقہ کرنے کی فضیلت کے بارے میں بہت سی آیات واحادیث ہیں۔

اگرصاحب مال جہالت یا تساہل کی وجہ سے اپنے مال کا سود وصول کرے،پھر اللہ تعالی اسے رشدوبھلائی کی ہدایت عطافرمائے تواسے چاہئے کہ اس مال کو نیک کاموں میں خرچ کردےاوراپنے مال میں اسے باقی نہ رکھے کیونکہ سود جس مال میں شامل ہوجاتا ہے،اسے تباہ وبرباد کردیتا ہےجیسا کہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے:

﴿يَمْحَقُ اللَّـهُ الرِّ‌بَا وَيُرْ‌بِي الصَّدَقَاتِ﴾ (البقرۃ۲۷۶/۲)

‘‘اللہ تعالیٰ سودکومٹاتاہےاورصدقےخیرات کوبڑھاتاہے۔’’

 ( (والله ولي التوفيق) )

 

 

مقالات وفتاویٰ ابن باز

صفحہ 317

محدث فتویٰ

تبصرے