سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(205) اندھیرے میں نماز پڑھنے کا جواز

  • 7570
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 3949

سوال

(205) اندھیرے میں نماز پڑھنے کا جواز
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا اندھیرے میں نماز پڑھنا درست ہے۔ ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جی ہاں اندھیرے میں نماز پڑھنا درست اور صحیح ہے۔کیونکہ روشنی کا وجود نہ تو نماز کی شرائط میں سے ہے اور نہ ہی ارکان میں سے ،اگر نماز اپنی شروط وارکان کو پورا کرتے ہوئے قبلہ رخ ہو کر پڑھی جائے تو اندھیرے کا کوئی نقصان نہیں ہے،نبی کریم کے دور میں رات کی نمازیں اندھیرے میں ہی ہوا کرتی تھیں،سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ(والبيوت يومئذ ليست فيها مصابيح) ان دنوں گھروں میں چراغ نہیں ہوا کرتے تھے،نیزنبی کریم سے فرض اور نفل دونوں طرح کی نماز اندھیرے میں پڑھنا ثابت ہے۔

حدیث نبوی ہے:

«عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ، قَالَ: لَمَّا قَدِمَ الْحَجَّاجُ الْمَدِينَةَ، فَسَأَلْنَا جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ، فَقَالَ: " كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الظُّهْرَ بِالْهَاجِرَةِ، وَالْعَصْرَ وَالشَّمْسُ نَقِيَّةٌ، وَالْمَغْرِبَ إِذَا وَجَبَتْ، وَالْعِشَاءَ أَحْيَانًا يُؤَخِّرُهَا، وَأَحْيَانًا يُعَجِّلُ، كَانَ إِذَا رَآهُمْ قَدِ اجْتَمَعُوا عَجَّلَ، وَإِذَا رَآهُمْ قَدْ أَبْطَئُوا أَخَّرَ، وَالصُّبْحَ كَانُوا - أَوْ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - يُصَلِّيهَا بِغَلَسٍ »(مسلم: ۶۴۶)

محمد بن عمرو کہتے ہیں کہ جب حجاج مدینہ میں آیا تو ہم نے سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے اوقات نماز کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز دوپہر کے وقت اور نہایت گرمی میں (یعنی بعد زوال کے ) پڑھا کرتے تھے اور عصر ایسے وقت میں پڑھا کرتے تھے کہ آفتاب صاف ہوتا اور مغرب جب آفتاب ڈوب جاتا، پھر پڑھتے اور عشاء میں کبھی تاخیر کرتے اور کبھی اول وقت پڑھتے۔ جب دیکھتے کہ لوگ جمع ہو گئے ہیں تو اول وقت پڑھتے اور جب دیکھتے کہ لوگوں نے آنے میں دیر کی ہے، تو دیر کرتے اور صبح کی نماز اندھیرے میں ادا کرتے تھے۔

سیدہ عائشہ فرماتی ہیں:

«فَقَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً مِنْ الْفِرَاشِ فَالْتَمَسْتُهُ فَوَقَعَتْ يَدِي عَلَى بَطْنِ قَدَمَيْهِ وَهُوَ فِي الْمَسْجِدِ وَهُمَا مَنْصُوبَتَانِ وَهُوَ يَقُولُ اللَّهُمَّ أَعُوذُ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ وَبِمُعَافَاتِكَ مِنْ عُقُوبَتِكَ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْكَ لَا أُحْصِي ثَنَاءً عَلَيْكَ أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ»(صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب ما یقال فی الرکوع والسجود ح ۴۸۶ )

میں نے ایک نبی کریم کو بستر سے گم پایا،پس میں نے آپ کو تلاش کیا اور میرے ہاتھ آپ کے قدموں پر جا لگے ،آپ مسجد میں تھے ،آپ کے دونوں پاؤں کھڑے تھے اور آپ اللہ سے یہ دعا کر رہے تھے۔ «اللَّهُمَّ أَعُوذُ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ وَبِمُعَافَاتِكَ مِنْ عُقُوبَتِكَ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْكَ لَا أُحْصِي ثَنَاءً عَلَيْكَ أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ»

مذکورہ بالا دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ اندھیرے میں نماز پڑھی جا سکتی ہے،اور اندھیرے میں نماز سے روکنے والوں کے پاس کوئی نص نہیں ہے

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

مقالات وفتاویٰ ابن باز

تبصرے