ہمارے گاؤں میں عصر کی نماز اس وقت پڑھی جاتی ہے جب ہرچیز کا سایہ اس کی مانند ہویا اس سے کچھ زیادہ ہوکیا ایسے وقت میں نماز ہوجاتی ہے۔؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
باب المواقیت میں حدیث ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ۔
یعنی جبرئیل علیہ السلام نے میری امامت کرائی ۔پس نماز ظہر پڑھائی جب زوال ہوا اورسایہ تسمہ قدر ہوگیا۔اور پھر عصر پڑھائی جب کہ ہرشے کاسایہ اس کے مثل ہوگیا۔
اس حدیث میں زوال کاذکر ہے اورزوال میں دوپہر کاسایہ داخل نہیں ۔پس جب دوپہر کا سایہ نکال کر ایک مثل ہوجائے توعصر پڑھ سکتے ہیں ۔لیکن یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ اذان وقت سے پہلے جائز نہیں جب وقت پرہوئی تودوچار رکعت قدر انتظار بھی چاہئیے ۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر سے پہلے دوچار رکعت پڑھتے تھے ۔اگرکہا جائے کہ جبرئیل علیہ السلام نےشروع وقت بتانے کی خاطر جلد نماز پڑھائی ۔چنانچہ دوسرے روز آخروقت پڑھائی تاکہ وقت کابھی پتہ لگ جائے ۔پھر فرمایا ان دونوں کے درمیان وقت ہے۔پس معلوم ہوا کہ جبرئیل علیہ السلام نےجس وقت نماز پڑھائی ہےاس وقت سے ذرا ہٹ کرپڑھے۔یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گرمیوں میں ظہر کی نماز تین قدم سے پانچ قدم تک پڑھتے ۔اورسردیوں میں پانچ سے سات قدم تک۔سردیو ں گرمیوں میں دوقدم کافرق بتلارہا ہے کہ زوال یعنی سورج ڈھلنے کاسایہ تین قدم ہونے پر نمازپڑھتے تھے حالانکہ سردیو ں میں اتنی تاخیرکی ضرورت نہیں ۔یہ صرف اسی خاطر ہوتی تھی کہ اذان کےبعدکچھ انتظار کرنی چاہیے ۔ایک حدیث میں ہے اتنی انتظار چاہیے کہ کھانے پینے والاکھانےپینے سےفارغ ہوجائے اورقضائے حاجت والا قضا کی حاجت سے فارغ ہوجائے ۔شرح بلوغ المرام میں لکھا ہے اگرچہ اس حدیث میں ضعف ہے لیکن اذان کی غرض اس کی موید ہے کیونکہ اذان کی غرض یہی ہے کہ لوگ سن کرپہنچ جائیں۔نیز بخاری میں حدیث ہے۔
یعنی ہراذان اوراقامت کےدرمیان جوچاہے نماز پڑھ سکتا ہے۔
اگراذان اوراقامت کے درمیان وقفہ نہ کیا جائے توجونفل پڑھناچاہے نہیں پڑھ سکے گا ہاں مغرب میں دونفلوں سے زیادہ وقفہ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس کاوقت تنگ ہے۔دوسری نمازوں میں اتنی افراتفری کی ضرورت نہیں ۔
وباللہ التوفیق